Tuesday, February 25, 2014

ہوا کے رخ پر بہنے والے یا باد مخالف سے ٹکرانے والے

آپ موٹر سائیکل پر بیٹھے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں کہ ٹریفک سگنل بند ہوجاتا ہے. سرخ بتّی جل رہی ہے اور اتفاق سے آپکو جگہ بھی سب سے آگے ملی ہے. سگنل بند ہے لیکن آپکے پیچھے گاڑیوں کے ہارن بدستور بج رہے ہیں، یہ ہارن آپکو سگنل توڑ کر آگے چلنے کا کہتے ہیں. بعض دفعہ کوئی بڑی گاڑی اور کبھی ٹرک آپکے پیچھے کھڑا ہوتا ہے. اپنے چنگھاڑتے ہارن بجانے کے ساتھ ساتھ یہ ہلکا ہلکا آگے بڑھتے ہیں اور ایکسیلیٹر پر دباؤ پڑتا ہے، انجن کی زور دار گھن گرج اور آپکے ماتھے پر چمکتا پسینہ آپکی ذہنی اور جسمانی کوفت کا پتا دیتا ہے. اس طرح کی صورتحال بھی قریب آجاتی ہے جب آپ اپنے پیچھے موجود لا تعداد گاڑیوں کے ہارن اور شور سے پریشان ہو کر سگنل توڑ دیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں،اور سارا ٹریفک آپکے پیچھے چل پڑتا ہے ...
دنیا بھی اس ہی طرح کا ٹریفک ہے، آپ اس کڑے دور میں جہاں ہر دوسرا شخص چھوٹے بڑے گناہوں میں ملوث ہو، جہاں برائی کا اس قدر ریلا آئے کہ آپکو اپنا آپ اس سے بچانا مشکل ہوجائے اور جب آپ ان گناہوں سے بچ رہے ہوں تو بجاۓ تعریف کے ہر طرف سے طعنوں کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے، کبھی مولوی ہونے کا طعنہ ملتا ہے تو کبھی دقیانوسی، بنیاد پرستی اور بیک ورڈنیس کا طعنہ. گناہوں کا اس قدر زور ہوتا ہے کے قریب ہوتا ہے کہ اس پیچھے سے آنے والے بھاری ٹریفک سے پریشان ہو کر سگنل توڑ کے آگے بڑھ جائیں. لیکن یہی تو آزمائش ہے. یہی تو وہ بھٹّی ہے جس سے گزرنے کے بعد تانبا تپ کر کندن ہوتا ہے.
صرف عمل نہیں بلکہ رائے عامّہ کے حوالے سے بھی دیکھیں جب ایک غلط رائے اس قدر عام ہوجائے بلکہ دوسرے الفاظ میں جھوٹ اس قدر بولا جائے کے سچ کا سا گمان ہونے لگے. ایسے حالات میں جب سب افراد کی رائے عامّہ مل کر ایک طوفان کی شکل اختیار کرلے اور قریب ہوجائے کہ حق بات کا پرچار کرنے والے بھی اس پراپیگینڈے کا شکار ہونے لگیں. ایسے حالات میں سچ بولنے والے کی حالت اس ہی سگنل پر سب سے آگے کھڑے بائیک والے کی سی ہے جس کے پیچھے دنیا جہاں کا ٹریفک کھڑا شور مچا رہا ہو.
ایسے وقت میں بس یہ سوچا جائے کے دنیا اور دنیا والوں کی ناراضگی زیادہ نقصان دہ ہے یا دنیا و آخرت میں اللہ تعالی کی ناراضگی. یقیناً آپکو اس کا جواب مل جائے گا.
ذرا سوچئے گا ضرور!

ابنِ سیّد

Monday, February 24, 2014

جنگ یا امن

دنیا میں کہیں بھی جنگ شروع ہو تو اس دوران دو گروپ سامنے آتے ہیں اس میں سے ایک گروپ وہ ہوتا ہے جو اس جنگ کی حمایت کرتا ہے جبکہ اس سے برعکس دوسرا گروپ وہ ہوتا ہے جو جنگ کی مخالفت کرتا ہے.
دنیا کی بڑی بڑی جنگوں کا مطالعہ کرنے اور اس میں شامل اقوام اور اسٹیک ہولڈرز کے بارے میں معلومات کرنے کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ جو افراد جنگ کی حمایت کرتے ہیں ان کے ذاتی دنیاوی مفاد اس جنگ سے وابستہ ہوتے ہیں. بیشتر مقامات پر آپکو اس قدر حیرت انگیز واقعات نظر آئیں گے جب آپکو معلوم ہوگا کہ جنگ کے حمایتیوں کی حمایت کی اصل وجہ ان کا نظریہ نہیں بلکہ اسلحہ کی خرید و فروخت سے مالی فائدہ سمیٹنا ہے لہذا اس طرح کے افراد چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ دیر تک جنگ کی جائے اور ایک نہیں بلکہ کئی کئی مقامات پر جنگ کی جائے، ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا جائے کیوں کہ جتنا زیادہ ہتھیار استعمال ہوگا اور جتنی دیر تک جنگ جاری رہیگی یہ لوگ اتنا زیادہ مالی فائدہ اسلحہ کی خرید و فروخت کے ذریعہ سمیٹ سکیں گے.
تاریخ گواہ ہے کہ روس نے دس دسمبر ١٩٩٤ کو جب چیچنیا پر حملہ کیا تھا اس وقت جو آرمی جنرل جنگ کے حق میں بڑھ چڑھ کر دلائل دے رہے تھے بعد میں وہی جنرلز چیچنیا کے لوگوں سے اسلحہ کی خرید و فروخت میں ملوث پائے گئے.
امریکہ کا جنگی جنون بھی اس ہی مفاد پرستی کے جذبے کا مرہون منت ہے کیوں کہ امریکہ اس وقت دنیا میں اسلحہ سازی کا سب سے بڑا مرکز ہے.
میں نہیں چاہتا کے میں کسی ایک خاص ملک اور خاص واقعہ کی منظر کشی کرکے آپکے ذہن کے دریچوں کو قید میں ڈالوں بلکہ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب بھی جنگ کے بارے میں بات ہو تو جذباتیت سے پرے ہٹ کر اس تیسرے زاویہ سے بھی سوچیں کہ آخر وہ کون کون سے لوگ ہیں جنہیں اس جنگ سے مالی فائدہ پہنچ سکتا ہے اور پہنچ رہا ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے جنگ کی حمایت کی جارہی ہے. یقیناً آپ کے سامنے کئی انکشافات ہوں گے اور صورتحال مزید واضح ہوگی.
ایک بار سوچئے گا ضرور!

ابنِ سیّد

ریاست کی رِٹ

مبارک ہو میرے ہم وطنو! ریاست کی رِٹ قائم ہوگئی، کل تک جہاں سبزہ تھا وہاں اب راکھ ہے کل تک جہاں آبادی تھی وہاں اب ویرانی کا راج ہے. مبارک ہو ریاست کی رِٹ قائم ہوگئی. اب یہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوگا، گانے بجانے ہونگے، رقص ہوگا سرور ہوگا، شراب ہوگی شباب ہوگا. مبارک ہو ریاست کی رِٹ جو قائم ہوگئی!
مبارک ہو میرے ہم وطنو! آج کے بعد کسی مجرم کو سرِعام سزا نہیں ملے گی، کوئی عبرت کا نشان نہ بنے گا، آج کے بعد سب مرضی سے جی سکیں گے، ملاوٹ کر سکیں گے، کرپشن کر سکیں گے، قتل و غارت کی کھلی چھوٹ ہوگی لیکن انہیں کوئی سزا دینے والا نہ ہوگا! عدالتیں ہوں گی مگر عدل نہ ہوگا، مبارک ہو ریاست کی رِٹ قائم ہوگئی!
مبارک ہو دہشتگردی کا خاتمہ ہوگیا، راہ نجات مل گئی، یہ دیکھو کسی کا جگر کا گوشہ شیلنگ میں چل بسا، یہ ایک اور خاندان ڈرون کا نشانہ بن گیا، یہ نوجوان کرفیو میں گھر سے کیوں نکلا، مارا گیا ناں آخر... لیکن ...بہرحال ریاست کی رِٹ تو قائم ہوگئی!
یہ کس کا گاؤں ہے جو اجڑ گیا؟ یہ کس کے کھیت ہیں جو جل چکے؟ یہ بارود کی بارش کیوں؟ یہ ڈرون یہ حملے کیوں؟ یہ گھروں کی لرزتی دیواریں... یہ ہجرت کرتے ہزاروں خاندان ... یہ بھوک سے بلکتے بچے... یہ بیمار ٹھٹھرتے بوڑھے... یہ سب اپنی جگہ لیکن ... مبارک ہو ریاست کی رِٹ قائم ہوگئی! مبارک ہو! مبارک ...

ابنِ سیّد

Saturday, February 22, 2014

Collateral Damage

Collateral Damage

سننے میں کتنا بے ضرر سا لگنے والا لفظ مگر معانی میں پنہاں ظلم و جبر کی ڈھیروں کہانیاں! ایسا نقصان کہ شاید جس کا ازالہ بھی ممکن نہیں، انسانی جانوں کا زیاں، چاہے وہ جانیں ڈرون حملوں میں ضائع ہوں یا بم دھماکوں میں یا پھر آپریشن میں یا جیٹ فائٹر کی آتش بازی سے یا کسی اور وجہ سے. شاید اس طرح کہنے والوں کے نزدیک انسانی جان کی قیمت چند روپے ہوں یا پھر انکے نزدیک یہ ایک فضول معاملہ ہو جس پر اظہار خیال کرنے سے ان کا وقت ضائع ہوتا ہے، یا پھر "اتنا تو چلتا ہے" والا معاملہ. اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جس کا پیارا کولیٹرل ڈیمیج کا شکار نہ ہوا ہو وہ شاید اس تکلیف کو محسوس نہیں کرسکتا اور اس معاملہ کی اہمیت کو نہیں سمجھ پاتا. لہذا ان افراد کی طرف ہی رجوع کیا جاسکتا ہے جن کے پیارے کولیٹرل ڈیمیج سجھ لئے گئے اور اس معاملہ میں ان متاثران کی رائے کی اہمیت ہی ہونی چاہیے نہ کہ ان کی رائے کو اہمیت دی جائے جو ڈرائنگ روم کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کا حل جنگ ہے جس کا مشورہ وہ دے رہے ہیں اور اس دوران ہونے والی جانوں کا زیاں کولیٹرل ڈیمیج ...
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اتنے آرام سے کسی انسانی جان کے زیاں کو کولیٹرل گردان کر معاملہ دبا دیا جائے جبکہ دوسری جانب مرنے والے کسی کے ماں، باپ، بھائی، بیٹا وغیرہ ہی کیوں نہ ہو یا پھر وہ اس گھر کا واحد کفیل ہو. کیا فاٹا میں رہنے والے مسلمانوں کی جان اس قدر کم قیمت ہے کہ جب چاہے ان پر ڈرون سے بم گرا دیا جائے، یا جہاز سے بم برسا دئے جائیں، یا ان پر آپریشن کیا جائے یا اندرون ملک ہجرت پر مجبور کردیا جائے.
سوچئے گا ضرور!

ابنِ سیّد

Friday, February 21, 2014

داڑھی

وقت کے ساتھ ساتھ دین پر عمل کرنے والوں کیساتھ آزمائشوں میں بھی تبدیلیاں آئیں. کس نے سوچا ہوگا کہ ایک مسلمان ہی نیک کام کرنے پر دوسرے مسلمان کے طعنے اور تضحیک کا نشانہ بنے گا.
داڑھی سنّت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، علماء اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں بعض اس کو واجبات میں شامل رکھتے ہیں، بعض کے نزدیک ایک مٹھی سے کم رکھنا گناہ جبکہ بعض کے مطابق مقدار کا تعین نہیں. لیکن عمومی طور پر سب اس کی فرضیت کے حوالے سے متفق ہیں.
اللہ کے رسول نے ایک غیر مسلم وفد کی جانب سے اس لئے منہ پھیر لیا تھا کیوں کہ انکی داڑھیاں مونڈھی ہوئی تھیں.
موجودہ دور میں داڑھی پر تنقید، آئیں صرف مسلمانوں کی بات کریں ہم سب ایک مسلم معاشرے میں رہتے ہیں، اس معاشرے میں داڑھی کوئی عجوبہ نہیں جبکہ اس کے باوجود داڑھی رکھنے والوں کیساتھ تضحیک کا سلسلہ جاری ہے. مُلّا، مولوی، مولانا، طالبان جیسے نام رکھنا. کبھی انہیں بکرے کا لقب دینا تو کبھی ملا نصیر الدین کے نام سے پکارنا. میں ایسے چند افراد کو جانتا ہوں جنہوں نے نوکری کے حصول کی خاطر داڑھیاں منڈوا لیں. یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں! کیا ایسا بھی کوئی مسلمان ہوسکتا ہے جو دینی فریضے کی ادائیگی کرنے پر اپنے مسلمان بھائی کو نوکری پر نہ رکھے،اگر یہ سچ ہے تو تُف ہے ایسے افراد کی ذہنیت پر!
میرے ایک دوست نے ایک جگہ شادی کا پیغام بھیجا جو مسترد ہوگیا. بعد ازاں معلوم ہوا کہ 'ناں' لڑکی کی جانب سے ہوئی ہے کیوں کہ لڑکا باریش جو تھا!
شاید اوپر بتائے واقعات میں کچھ اونچ نیچ ہوگئی ہو مگر یہ ایک معاشرے کا رویہ جس پر مجھے سخت اعتراض ہوا اور میں نے اپنا فرض سمجھا کے سب کو اس سے آگاہ کروں، شاید بعض کے نزدیک اس کی اہمیت نہ ہو مگر جن کے نزدیک اس کی اہمیت ہے اسکا احترام سب پر فرض ہے.
آخر میں ایک لطیفہ عرض ہے، ایک باریش شخص سائیکل پر جارہا تھا کہ ایک خاتون سامنے آگئیں اور ٹکر ہوگئی. خاتون نے کہا اتنی بڑی داڑھی رکھی ہوئی ہے اور ٹکر مار دی. جواب ملا "محترمہ یہ داڑھی ہے! بریکیں نہیں!"
بات تو سچ ہے!

ابنِ سیّد

Saturday, February 15, 2014

اپنے دماغ کا استعمال کریں! !!

ایک دفعہ امام غزالی رح ایران سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد عراق کی جانب گامزن سفر تھے کہ اس قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہوگیا، تمام مسافروں سے قیمتی اشیاء لینے کے بعد انہوں نے امام غزالی رح سے بھی ان کا سامان لے لیا جس میں ایک ان کی کتاب بھی تھی. امام کو اس بات کا بہت رنج ہوا لہذا ڈاکوؤں کے سردار کے پاس جا پہنچے اور اپنی کتاب کا تقاضا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ علم حاصل کیا تھا وہ اس کتاب میں تھا. یہ سن کر سردار نے کہا عالم کا علم تو اس کے سینے میں ہوتا ہے تم کیسے عالم ہو کہ تم سے ایک کتاب چھین لی گئی تو تم کچھ بھی نہ رہے، یہ کہہ کر کتاب واپس دلوادی. اس بات کا امام پر کافی اثر ہوا اور کچھ ہی دن میں انہوں نے اس تمام علم کو حفظ کرلیا.
اگر آج ہم اپنی حالت پر نگاہ دوڑائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص حافظہ کی کمزوری میں مبتلا نظر آتا ہے. پہلے تو یہ بزرگوں میں عام تھا لیکن اب تو جوان اور ادھیڑ عمر افراد بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں. ہمارا حافظہ گوگل، وکی پیڈیا اور ہمارے موبائل کا محتاج ہوتا جارہا ہے. کوئی فون کرے اور اتفاق سے ہمارے پاس اس کا رابطہ نمبر محفوظ نہ ہو تو ہم اس کی آواز اس وقت تک نہیں پہچان پاتے جب تک کہ وہ خود نہ تعارف کرا دے. مختلف ایام اور تاریخی واقعات کا ذکر ہو تو ہم گوگل دیکھے بنا نہیں بتا پائیں گے. موبائل کے کیلنڈر میں اگر محفوظ نہ ہو یا ریمائنڈر نہ لگا ہوا ہو تو ہم بہت سے لوگوں سے کیے وعدے بھول جاتے ہیں اور پھر شرمندہ ہونا پڑتا ہے.
انسانی اعضاء بالخصوص دماغ استعمال کرنے سے حرکت میں رہتے ہیں اور اگر ان کو تناؤ میں نہ رکھا جائے تو رفتہ رفتہ یہ زوال کی جانب سفر شروع کردیتے ہیں. ہم نے مختلف اوقات میں اپنے ذہن کے بجاۓ دوسرے ذرائع پر دھیان دیا اور آج ہم ان تمام چیزوں کے محتاج ہوچکے ہیں اور ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ اگر ہم سے ہمارا موبائل چھین لیا جائے تو ہم اس قابل بھی نہیں رہ پاتے کے کسی عزیز کو فون کرکے خیریت کی اطلاع دیں. کوئی مشکل سا سوال پوچھ لے تو ہم گوگل کھول کے بیٹھ جاتے ہیں. اور ہاں گرائمر کی تو فکر ہی کیا جب ورڈ ایپلیکیشن میں یہ سب ایک کلک کا کام ہو.
خدارا اپنے دماغ کو استعمال میں رکھیں، اس پر زور ڈالیں اور تناؤ میں رکھیں. ورنہ یہ نہ ہو کے اگر ہم سے موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے لیا جائے تو ہم ایک قدم اٹھانے کے بھی قابل نہ رہیں.
ابنِ سیّد

Thursday, February 13, 2014

حیا کے کلچر کو عام کریں

ویلنٹائن ڈے کی بنیاد پوپ جیلے سیوس(عیسائی راہب) نے 496 عیسوی میں رکهی. (وکی پیڈیا)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.
جس نے کسی اور قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہو گا.صحیح ابوداود

لیکن جب دل گناہ پر آمادہ ہو اور ذرائع ابلاغ کے تمام ادارے بھی اس گناہ گاری کے عمل کو اپنی کوششوں سے تقویت دے رہے ہوں تو پھر افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انہیں گناہوں سے نفرت دلانے کیلئے قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے دلائل بھی سامنے لانے پڑتے ہیں. اس وقت ہم میڈیا کی اس معاملہ میں بیہودہ کوششیں دیکھ سکتے ہیں بہت سی کمپنیز نے اس کو ایک مارکیٹنگ تکنیک جانا اور پھر ایک مخصوص پراڈکٹ کا اشتہار جو ان دنوں کافی چلنے لگا، کس جانب لیجایا جارہا ہے قوم کو...
ایک جانب بے غیرتوں کا ٹولہ چینخ رہا ہے کہ ہم طالبانی شریعت نہیں چاہتے، اصل میں تو انہیں اسلام سے ہی نفرت ہے لیکن کھل کر اسلام کو برا نہیں کہہ سکتے لہذا طالبان یا مولوی کو کہہ کر بھڑاس نکالتے ہیں.
میں کہتا ہوں،کیوں خاموش ہیں باقی افراد، کیوں اس بیغیرتی کیخلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا، کیوں آگے بڑھ کر گناہ گاروں کا ہاتھ نہیں پکڑتا. کیوں پیمرا کو ٹی وی چینلز کی کمپلین نہیں کرتا، کیوں پروگرام میں کال کرکے انکو غیرت نہیں دلاتا...
اور پھر اس بیغیرتی کمپین کے نتیجہ میں جب کسی لڑکی کے چہرہ پہ تیزاب گرتا ہے، یا زیادتی کا شکار، یا پھر غیرت کے نام پر قتل ہوجاتے ہیں تو انسانی حقوق کی نام نہاد این جی اوز کاروبار چمکانے نکل پڑتی ہیں. حضرت! پہلے گناہوں کے اسباب اور میڈیا بیغیرتی کی فیکٹریاں بند کریں باقی عوامل خود سے رک جائیں گے لیکن اگر یہ چاہا جائے کے میڈیا بیغیرتی دکھاتا رہے اور معاشرے میں اس طرح کے واقعات کم ہوجائیں تو یہ نری بھول ہے.
#SayNo2ValentineDay
#HayaDay
ابنِ سیّد

5 reason I will NOT vote for Bilawal

5 reason I will NOT vote for Bilawal

1. I want a "male" leader : I have no objection on Bilawal's gender however I am not even able to confirm what he really is! Can anyone confirm???
2. I will give priority to Pakistani politicians: I am in favor of a real Pakistani, not in favor of imported material whether its like Bilawal from US, Altaf from London or TuQ from Canada. Usually imported things have no warranty in Pakistan their warranty is valid until they are abroad!
3. I don't want Zardari to be president again: I think if I voted Bilawal and he won then there always will be a danger of Mr. 10% to become the supremo leader, so, prevention is better than cure!
4. I hate Ali Gul Pir, Annie, Superman: I dont want to see flopped-tuty-fruty-talented artists like Ali Gul Pir and rejected-singer-cum-dancers like Annie to always ruin our entertainment.
5. Enough of Saeen to Saeen dialogue: We have seen too much of this saeen to saeen crap in social media, and its way too old. So, bring something new or GTH.

P.S.: Never mind ;)

Ibn e Syed

وہ لافانی کردار

میں دیکھتا ہوں ایک مانوس سا چہرہ، جھریوں میں چھپا چہرہ، جھکی ہوئی کمر، سفید بال لیکن بلا کی روحانی طاقت. میں کبھی بائیک پر جارہا ہوتا ہوں تو رستہ میں بہت دور سے ایک شخص چلتا ہوا نظر آتا ہے مختلف مقام پر رک کر لوگوں کو درس قرآن کے دعوت نامے پکڑاتا ہوا نظر آتا ہے. میں دل میں سوچتا ہوں کہ یہ شخص تھکتا کیوں نہیں.
میں دیکھتا ہوں جلسے جلوس ریلی ہو یا احتجاج یا پھر الیکشن وہی مانوس سا چہرہ وہی جھریوں بھری بولتی سمجھتی کچھ کہتی آنکھیں ہاتھ میں پکڑا ہوا پلے کارڈ جو اس نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے کسی کمپیوٹر پر بنا کر پینافلیکس پر پرنٹ نہیں نکالا. چند رہنماؤں کے اخبار میں چھپے بیانات ہیں جو اس نے خود اخبار سے کاٹ کر الگ کئے اور اس پر چسپاں کئے اپنے ہاتھ میں لے کر جارہا ہے. کبھی پروگرامات میں دریاں بچھانے والا، کبھی نوجوانوں کے حوصلے بلند کرتا.
میں غور کرتا ہوں تو مجھے دکھائی دیتی ہے ایک انتھک محنت، ایک لازوال محبت، ایک عہد کی وفاداری،ساری زندگی کا تجربہ، عمر بھر کا سرمایہ، جان، مال، وقت دینے والا ...
اگر یہ صرف ایک کردار ہوتا تو میں شاید نام تحریر کردیتا لیکن میرے اطراف میں تو ان گنت مثالیں پھیلی ہیں.
لوگ کہتے ہیں جماعت اسلامی کس کے بل پر چل رہی ہے، بعض مذاق اڑا کر کہتے ہیں بوڑھوں کی جماعت ہے. میں مسکراتا کر کہتا ہو یہی تو جماعت کا سرمایہ ہیں.
ابنِ سیّد

Sunday, February 9, 2014

پاکستان کو جینے دو

مذاکرات کا فیصلہ کیا ہوا بعض جگہ تو صف ماتم بچھ گئی. شاید بعض افراد امن گولی سے لانا چاہتے ہیں لیکن انکا مقصد کیسے پورا ہو جبکہ گولی کا استعمال ہی خود مزید جنگ کو فروغ دیتا ہے. تقریباً تمام میڈیا اینکرز مذاکرات کا فیصلہ ہونے کے بعد سیاست دانوں سے یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ "جب پوری قوم آپریشن کا فیصلہ توقع کر رہی تھی تو یہ مذاکرات کیسے بیچ میں آگئے" جبکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حیران و پریشان ہیں کہ اتنی بڑی اور آپریشن کے حق میں بھاری انویسٹمنٹ کرنے کے بعد بھی انہیں مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوئے اور حکومت نے مذاکرات کا دانشمندانہ فیصلہ کرلیا. اس سوال کے جواب میں حکومت کے ایک عہدیدار نے جواب دیا کہ "یہ آپکی سوچ ہوگی کہ آپریشن کا فیصلہ کرنا ہے جبکہ حکومت کے پاس موجود دونوں راستوں میں سے ایک راستے کا انتخاب کیا گیا". دوسری جانب عوام کے نمائندگان اے پی سی میں جب مذاکرات کو واحد حل قرار دے چکے ہیں تو پھر میڈیا اور دوسرے حلقوں کو آپریشن کی توقع کیوں رہی. دوسری جانب ہم نے دیکھا کہ مذاکرات کے فیصلہ کے ساتھ ہی تمام چینلز حکومتی کمیٹی اور مذاکرات کے اندر معاونت کرنے والی مذہبی شخصیات کے کردار پر پروگرام شروع ہوگئے اور بعض چینل اس میں اتنے آگے بڑھ گئے کے صحافت کے کوڈ آف کنڈکٹ کو بھی ایک جانب رکھ دیا، بیشتر ٹی وی چینل پر سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ان رہنماؤں کو جن کو معاونت کیلئے طالبان نے نامزد کیا تھا ان کو ببانگ دہل طالبان کمیٹی کا نام دیا جارہا ہے جبکہ اصلاً یہ ایک ثالثی کمیٹی ہے جو دونوں فریقین (حکومت و طالبان) میں رابطہ کا کام دیگی اور ان مذاکرات میں معاونت کریگی لیکن میڈیا کا کردار سوالیہ نشان ہے.
میرا خیال یہی ہے کہ اب عوام کو اس اسکرین سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا اور اس جانب دیکھنا ہوگا کہ کس کی ایماء پر عوام کا ذہن دوسری جانب منتقل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں. میڈیا کا کردار کھل کر سامنے آچکا ہے اور مختلف چینلز کی جانب سے جانبدارانہ رویہ اب انکے کردار کو مشکوک بنا رہا ہے.
ابنِ سیّد

Saturday, February 8, 2014

ایم بی اے کیوں؟

بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کہ میں نے ایم بی اے کیوں کیا اور اس کی ایسی کیا ضرورت پیش آئی؟ میرا خیال ہے کہ موجودہ دور میں ایم بی اے کرنا یا کسی بھی طرح کی مینیجمنٹ سے متعلق تعلیم (مینیجمنٹ سائنس کی تعلیم) حاصل کرنا جاب میں آگے بڑھنے کیلئے بہت ضروری ہے.
میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ ایم بی اے کی ڈگری کے بغیر آپ آگے نہیں بڑھ پائیں گے یا ترقی نہ کر پائیںگے بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ مینجمنٹ کی تعلیم کیساتھ پروفیشنل کیریئر کی اگلی سیڑھیوں پر قدم رکھنا قدرے آسان ہو جائیگا.
وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ اگر آپ نے انجینئرنگ کی ہے تو یقیناً آپ انجینئرنگ کے ماہر ہونگے، میڈیکل پڑھا تو میڈیکل کے، جیولوجی کی تعلیم ہے تو جیولوجی میں آپ ماہر ہونگے لیکن ایک کمپنی (بزنس فرم) میں آنے کے بعد آپکو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں آپکی میجر تعلیم کے علاوہ اور بہت سی مہارتوں کی ضرورت ہے (خصوصاً مینجمنٹ کی) اور یہی سب کچھ بزنس ایڈمنسٹریشن کے ڈگری پروگرام کا حصہ ہے. ایم بی اے آپکو یہ سمجھا دیتا ہے کہ ایک فرم کو بنانے اور چلانے کیلئے کیا کیا وسائل اور فنکشنز کی ضرورت ہوتی ہے (جیسے ہیومن ریسورس، فائیننس، آپریشن، مارکیٹنگ، سیلز، پلاننگ اور بہت کچھ) اور جب ان سب کے بارے میں معلومات کو آپ سمجھ جاتے ہیں تو فرم میں کام کرنا، دوسروں کے فنکشن کو سمجھنا اور ان سے معاملہ کرنا کافی آسان ہوجاتا ہے اور یہی چیز آپکے کیریئر میں مددگار ثابت ہوتی ہے.
ابنِ سیّد

Thursday, February 6, 2014

افغانستان ہی کیوں؟

افغانستان میں ایسا کیا ہے جو اس کو دوسرے ممالک سے منفرد کرتا ہے، میدانی علاقے، پتھریلے پہاڑ، غربت، لیکن پھر بھی عالمی طاقتوں کی اس پر نظر رہی برطانیہ کے بعد رشیا اور اب امریکہ کی بربادی اسے یہاں تک لے آئی. یہ صرف اسلام اور کفر کی جنگ ہے جس کے ایک سرے پر طالبان اور دوسری جانب امریکہ کھڑا ہے اور باقی دنیا والوں کو ان میں سے ایک فریق کا ساتھ دینا ہے. افغانستان کی بنجر زمین میں امریکہ کو سوائے موت کے کیا ملا لیکن اسکے آنے کی وجہ صرف اور صرف یہاں اسلام کے لیواؤں کا ہونا ہے جو نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی باطل سے ٹکرانے اور اس کو پاش پاش کرنے پر اکساتے ہیں اور یہی بات امریکیوں کے گلے کا کانٹا ہے.
لیکن یہ بات امریکیوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے گلے میں بھی اٹک گئی ہے جو خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور افغانستان میں امریکی مداخلت کو افغانستان کا ذاتی مسئلہ کہتے ہیں لیکن جب امریکہ کیساتھ یا اسکے خلاف ساتھ دینے کا سوال آتا ہے تو یہی افراد اس "اندرونی معاملہ" کو اپنے گلے کا ہار بنا کر امریکہ کی صفوں میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور اس جنگ کو "اپنی" جنگ کہہ کر ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں تاکہ یو ایس ایڈ کے خزانوں سے مستفید ہو سکیں اور انکا یہی کردار ان کو سب کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے، لیکن صدقے جائیں ڈھٹائی کے..
ہاں بالکل یہ ہماری جنگ ہے لیکن ہم اس میں غلط جانب کھڑے ہیں ہم صلیبی جنگ میں صلیبیوں کے شانہ بشانہ ہیں اور یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے. ہم نے خدا سے کئے اس عہد کی پاسداری نہ کی اور یہی وجہ ہے کہ ہم پر ذلت مسلط کردی گئی. دو بروں میں سے کم برے کا انتخاب مشکل ہوسکتا ہے لیکن ہم نے حق اور باطل واضح ہوتے ہوئے بھی باطل کا ساتھ دیا. اور اگر کوئی اسکی ذمہ داری حکمرانوں پر ڈالتا ہے تو یہ بھی سوچ لے کہ اس سب کا ذمہدار حکمرانوں کو ٹھہرانا ہماری ذمہ داری مکمل نہیں کرتا کیوں کہ حکمران بھی ہم ہی میں سے ہیں.
ابنِ سیّد

لبرلز انتہاپسندی

لبرلزم کا لغوی مطلب تو روشنخیالی یا آزادخیالی ہے لیکن ہر دوسری چیز کی طرح جب یہ چیز پاکستان امپورٹ ہوکر آئی تو اس کا بھی وہی حشر ہوا جو میٹروبس کے ساتھ ہوا. دیکھا جائے تو روشنخیالی کا عمومی مطلب ہے "جیو اور جینے دو" یعنی اپنے نظریات پر چلو اور دوسروں کے کام میں دخل نہ دو لیکن اصل میں ہوا کیا، پاکستان میں اور تقریباً تمام مسلمان ممالک میں لبرلزم کے حامی بزورِ قوت اپنا ایجنڈا نافظ کرانے کے چکر میں رہے اور اس میں عوامی حمایت کا خیال رکھنا تو درکنار آمروں کا ساتھ دینے میں بھی نہ چوکے! اپنے اچھوتے کردار اور منہ پھٹ رویّہ کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں یہ مناسب کوریج پالیتے ہیں. ان کی انہیں کوششوں کی وجہ سے روشنخیالی کو اب خام خیالی کہا جائے تو بہتر رہیگا. آئیں ان کے چند خدّوخال کا جائزہ لیتے ہیں ...
عسکریت پسندی ہمارے ملک کا دیرینہ مسئلہ ہے اگر کسی لبرل سے پوچھا جائے تو وہ سارے تانے بانے افغان جہاد اور ضیاالحق سے جوڑے گا لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ الذوالفقار نامی عسکری تنظیم کی بنیاد رکھنے والے ہمارے نہایت ہی لبرل اور پروگریسیو جناب بھٹو صاحب تھے،تو صاحبو! ایک نان اسٹیٹ ملٹری ونگ اور اسکی نمود ونما کا شاخسانہ لبرلز سے جا کر ملتا ہے. اور یہ وہی تنظیم ہے جِسکے کامریڈ جناب ٹیپو نے پی آئی اے کے طیارے کی ہائی جیکنگ کا کارنامہ سرانجام دیا تھا. اب ان سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ وہ تنظیم تو ایک آمر کے خلاف بنی تھی لیکن کوئی یہ پوچھے کے کیا ایک فرد کی قانون شکنی کے جواب میں دوسرے کو بھی قانون کی دھجّیاں اڑانا جائز ہوجاتا ہے، شاید اس نام نہاد لبرلزم کے اصول و ضوابط میں وضع ہو!
کیپیٹل پنشمنٹ جس میں ریاست خود ایک فریق بن جاتی ہے. ساری دنیا میں یہ ایک متنازعہ موضوع ہے لہذا اس حوالے سے یہ ہی رائے بہتر ہے کہ کوئی تیسری قوت (تھرڈ پارٹی) ان مقدمات کا فیصلہ کرے جیسے یو این او وغیرہ لیکن بنگلہ دیش کے کیس میں ہم نے دیکھا کہ جب پاکستان میں پارلیمنٹ میں عبدالقادر مولاہ کی سزا کیخلاف قرارداد منظور ہوئی تو اس کی سب سے زیادہ مخالفت لبرلز کی جانب سے آئی جبکہ ساری دنیا میں لبرلز کیپیٹل پنشمنٹ کیخلاف ہیں. دوسری جانب سزائے موت کے قانون کے حوالے سے ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں لبرلز سزائے موت کے قانون کیخلاف تحاریک چلاتے رہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک کھلا تضاد یہ دِکھنے میں آیا کہ پچھلے دس سالوں میں کسی کو سزائے موت نہیں ملی جس میں بعض جہادی تنظیم کے سرکردہ افراد ہیں اور ایک ان میں ممتاز قادری بھی ہیں ان کے معاملے میں لبرلز کی جانب سے کافی پریشر ڈالا جاتا ہے کہ سزائے موت دی جائے. یعنی سزائے موت والے موقف سے اس صورت میں منہ پھیر لیتے ہیں جب مجرم کسی دائیں بازو کا ہو!
یہی دوہرا رویہ ملٹری آپریشن کے معاملے میں بھی نظر آتا ہے، جب کوئی اسلام کا نام لے کر قانون کو ہاتھ میں لے تو اس پر ان کا موقف ہوتا ہے کہ ایسے افراد کو جینے کا حق نہیں نہ ہی صفائی پیش کرنے کا حق ہے لہذا آپریشن کردیا جاۓ چاہے اس میں بیگناہ مارے جائیں. لیکن جب یہی قانون کو ہاتھ میں لینے والی حرکت کرنے والا کوئی گروہ اگر قوم پرست، کمیونسٹ یا اشتراکیت کا علم بردار ہو تو یہی لبرلز ملٹری آپریشن کی مخالفت اور مذاکرات کی راہ ہموار کرتے دکھائی دیتے ہیں.
الغرض، چاہے وہ قائداعظم کے اسلامی پاکستان کس تصور ہو، یا نصاب میں اسلامی اسباق کی شمولیت یا پھر حدود آرڈیننس کا معاملہ ہو، ان کی کوششیں ہمیشہ الٹی گنگا بہانے میں صرف ہوتی ہیں.
ایک دفعہ ایک دوست نے دیسی لبرلز کی تعریف ان الفاظ میں واضح کی تھی کہ گھر میں جس بچے پر والدین کم توجہ دیتے ہیں وہ اونگ پٹانگ حرکات کرکے والدین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے. پاکستانی معاشرے میں بھی دیسی لبرلز کا معاملہ اس بچے جیسا ہے!
ابنِ سیّد

Monday, February 3, 2014

دشمن کی تلاش


تڑ تڑ تڑ دونوں اطراف سے گولیاں چل رہی ہیں، دھماکوں کی آواز میں کچھ سنائی نہیں دے رہا. گھروں کی دیواریں لرزی جاتی ہیں. خاک و خون میں لت پت بے جان جسم جگہ جگہ بکھرے ہیں. پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ ہے، پھر دھماکوں کی گھن گرج اور پھر ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے. موت کا سنّاٹا شاید اسی کو کہتے ہیں. پھر ایک طرف سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں دشمنوں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے، شاید اب بھی کوئی سخت جان بچا رہ گیا ہو... اتنے میں ایک شخص نظر آتا ہے سب اس کی جانب لپکتے ہیں لاتوں گھونسوں سے استقبال ہوتا ہے پھر ایک جانب کھڑا کر کہ لبلبی دبا دی جاتی ہے بندوق سے شعلہ نکلتا ہے اور جسم بے جان ہو کر گر جاتا ہے، ہونٹ ہلتے ہیں کلمہءشہادت بلند ہوتا ہے. فِضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے پھر سے گونج اٹھتی ہے، جیت کا جشن منایا جارہا ہے. قافلہ نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے اگلے "دشمن" کی تلاش میں روانہ ہوجاتا ہے...
ابنِ سیّد
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments