کامن سینس از ناٹ سو کامن
ہمارے ملک کا دیسی لبرل طبقہ کہتا ہے کہ ملک میں شراب پر پابندی کی وجہ سے لوگ غیر قانونی شراب کی خرید و فروخت لاکھوں روپے کے حساب سے کر رہے ہیں، کہتے ہیں اس کے بجاۓ پابندی ہٹا کر ٹیکس لگا دینا چاہیے تاکہ ملک کی معیشیت کو فائدہ ہو، ویسے یہ سب سن کر مجھے ذرا بھی حیرت نہیں ہوئی جو لوگ امریکی بھیک کیلئے ایمان بیچ سکتے ہیں انکے لئے ایسا کہنا کوئی اچھوتا تجربہ نہیں.
حیرت اس بات پر ہے کہ بجاۓ اپنی پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کی بات کرنے کے یہ لوگ پابندی ہٹا کر ٹیکس لگانے کا کہہ رہے ہیں. اگر شراب غیرقانونی فروخت ہورہی ہے تو اس کی ذمہداری پولیس پر ہے کہ وہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر رہے.
حیرت اس بات پر ہے کہ بجاۓ اپنی پولیس کے نظام کو بہتر بنانے کی بات کرنے کے یہ لوگ پابندی ہٹا کر ٹیکس لگانے کا کہہ رہے ہیں. اگر شراب غیرقانونی فروخت ہورہی ہے تو اس کی ذمہداری پولیس پر ہے کہ وہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کر رہے.
اگر ہم ان کی اس ہی لاجک (اسکو لاجِک کہنا لفظ لاجِک کی توہین ہے) کو لے کر چلیں، تو جناب ملک میں زنا بھی عام ہے تو کیا اس پر بھی ٹیکس لگا کر ملکی معیشیت کو سہارا دیا جائے؟ چوری، ڈکیتی، موبائل اسنیچنگ کی بھرمار ہے تو کیا ہر ڈکیتی پر پندرہ فیصد ٹیکس لگا کر اسے لیگلائز کردیا جائے؟ اور تو اور دھماکے اور خودکش حملوں کی بھی دل کھول کر پیداوار ہے اس حوالے سے حکومت کو حملے کی ایک مقرّر کردہ فیس دے کر معیشیت مضبوط کی جائے اور دھماکوں کی کھلی چھوٹ دے دی جائے؟
اے کاش اس ملک کے لبرلز کیلئے کوئی کامن سینس ڈیویلپمنٹ کا شارٹ کورس ہوتا...
ابنِ سیّد
Image Taken From Here
No comments:
Post a Comment