Friday, May 23, 2014

سبز پوشاک والے بزرگ / حکمرانو! امریکی پراکسی جنگ سے باہر آجاؤ

آئیں آج تاریخ کے ورق الٹتے ہیں، پینسٹھ اور اکھتّر کی جنگوں میں جب ہم اپنے روایتی حریف ہندوستان کیخلاف محاذ جنگ پر تھے، دورانِ جنگ کچھ ایسے کردار و واقعات بھی سامنے آئے جو بہت عجیب تھے، ان میں سے ایک کردار وہ بزرگ تھے جو جنگ کے درمیان سبز پوشاک پہنے نظر آتے تھے، بتانے والے بتاتے ہیں کہ انکے نظر آتے ہی معجزات رونما ہوجاتے، مختلف طریقوں سے غیبی امداد ملنی شروع ہوجاتی، یہاں تک کہ کچھ نے یہ بھی بیان کیا کہ یقینی شکست ہوتے ہوتے فتح میں بدل جاتی۔۔۔ بعض نے انہیں کوئی کراماتی بزرگ اور ولی قرار دیا تو بعض کے نزدیک یہ خدا کی جانب سے کوئی مدد کا فرشتہ تھے، انکے بارے میں مختلف کہانیاں مشہور ہوئیں لیکن یہ شخصیت راز ہی رہی۔۔۔
پھر وقت بدلتا ہے، منظر یکسر تبدیل ہوجاتا ہے، ہماری سب سے بڑی جنگ ہماری اندرونی جنگ بن جاتی ہے اور ہمارے بیرونی دشمنان ہمارے لئے غیر اہم ہوتے ہوتے آخر کار دوست (موسٹ فیورٹ نیشن) میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں ۔۔۔ ہمارا اندرونی دشمن طاقتور سے طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے ایک کے بعد ایک علاقوں میں جنگ چھڑتی چلی جاتی ہے جوان لڑتے، مرتے اور مارتے رہتے ہیں لیکن وہ علاقے فتح نہیں ہوپاتے، ملک اس دلدل میں دن بہ دن ڈوبتا جاتا ہے۔۔۔ مگر۔۔۔
مگر نہ جانے کیوں اس مصیبت کے دور میں وہ سبز پوشاک والے بزرگ اب کہیں بھی نظر نہیں آتے، ہمارے جوانوں کی آنکھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے پتھرا جاتی ہیں، لوگ توقع کررہے ہوتے ہیں کہ ابھی وہ بزرگ کہیں سے آ نکلیں گے، یکایک کرشمے ہوجائیں گے اور جنگ کا پانسہ پلٹ جائیگا، مگر شاید وہ بھی اس تمام صورتحال سے نالاں ہیں۔۔۔ نہ کوئی غیبی مدد آتی ہے نہ ہی کوئی اور معجزہ رونما ہوتا ہے ۔۔۔
کوئی تو پتا کرو کہاں ہیں وہ بزرگ کہیں سے انہیں ڈھونڈ کے لاؤ کہ یہ جنگ بہت پھیل چکی ہے، اب بس اور نہیں لڑا جاتا۔۔ لیکن شاید وہ بزرگ اب نہیں آئیںگے۔۔۔
یہی سوال لے کر میں اپنی سوچ کی وادیوں میں گم تھا کہ یکایک ایک بجلی کوندی اور ہر جانب دھواں سا پھیل گیا، اس دھوئیں میں مجھے سبز پوشاک نظر آئی، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بزرگ اس دھند سے نکل کر میری سوچوں میں میرے سامنے آئے، چشم تصور سے میں نے انہیں کہتے سنا۔۔۔
میں نے تو تمہاری مدد اُس وقت کی تھی جب تم ہندوستان سے لڑ رہے تھے، وہ کل بھی میرا دشمن تھا اور آج بھی میرا دشمن ہے مگر آج وہ تمہارا دوست ہے، بتاؤ میں کیسے تمہاری مدد کروں، کل یہ اندرونی دشمن جن سے تم آج لڑ رہے ہو یہ تمہارے شانہ بشانہ تمہارے لئے لڑ رہے تھے اور آج تم دونوں باہم دست و گریباں ہو، میں کیسے تمہاری مدد کروں؟
جاؤ میں نہیں آتا تمہاری مدد کرنے، بزرگ یہ کہہ کر واپس مڑتے ہیں اور اس دھوئیں میں غائب ہوجاتے ہیں، بم دھماکوں کے دھوئیں میں، ڈرون حملوں کے دھوئیں میں، خودکش حملوں کے دھوئیں میں، گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں۔۔
رہ جاتی ہے تو بس ایک گونجدار آواز۔۔۔
"جاؤ! یہ میری جنگ نہیں!"


ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments