Tuesday, May 20, 2014

پاکستانی میڈیا : تصویر کا تیسرا رخ!!


میڈیا، خصوصاً پاکستانی میڈیا ہمیشہ سے میری دلچسپی کا موضوع رہا ہے، ان دنوں جب میں انگریزی بلاگس لکھا کرتا تھا ایک سے زائد بلاگ میں اس حوالے سے اپنا اظہار خیال کرچکا ہوں. موجودہ میڈیا کی لڑائی میں شاید "غائبانہ ہاتھ" کی انوالومنٹ کچھ لکھنے سے روکتی رہی، لیکن ایک لکھاری ایک حد تک ہی اپنے آپ کو روک سکتا ہے، لہذا آج اس موضوع پر بھی قلم اٹھا رہا ہوں. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہاں بیان کی گئی باتیں بری لگیں لیکن میں تصویر کا دوسرا بلکہ تیسرا اور چوتھا رخ بھی دکھانا اپنا فرض سمجھتا ہوں.
میں کبھی بھی جیو اور جنگ کا پرستار نہیں رہا اس سے بیشتر ایک بلاگ میں جیو اور دوسرے بلاگ میں امن کی آشا کے اوپر اعتراضات کرچکا ہوں لہذا جیو کے ایڈووکیٹ ہونے کی پبھتی لاحاصل ہے.
حامد میر پر قاتلانہ حملے سے شروع ہونے والا معاملہ آج اس حد تک بڑھ گیا کہ بعض "مخصوص" علماء کی جانب سے فتوے بھی برس گئے. پاکستانی میڈیا جس میں جیو، اے آر وائی، سماء، ڈان وغیرہ شامل ہیں، ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکی ڈوریں کدھر سے ہلتی ہیں اور تماشا کہاں پر ہوتا ہے. چاہے سوات والی جعلی ویڈیو پر واویلا ہو، یا پھر منور حسن کے بیان پر پروپیگینڈا یا پھر الطاف بھائی کی تین تین گھنٹے تک نشر ہونے والی تقاریر یا پھر تحریک انصاف کو قد سے بڑا کر کے دکھانے کی الیکشن کمپین، سب نے دیکھا کہ ڈوریں ہلتے ہی تمام معاملات اسکرین پر آئے اور اس ڈور کے رکتے ہی تمام معاملات پس منظر میں غائب! افسوس! اس حمام میں سارے ہی ننگے نکلے! اگر ہم نے کسی ایک کو بلّی کا بکرا بنا دیا تو کل باقی سب دودھ کے دھلے بن کر عوام کے سامنے آجائیں گے لہذا یہ موقع ہے ان سب کیخلاف ایک ساتھ کمپین چلانے کا تاکہ انکا کچھ حل نکل سکے!
اگر جیو کی امن کی آشا پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو ایکسپریس ٹریبیون بلاگ کی ویبسائٹ بھی دیکھ لی جائے جہاں پاکستان سے زیادہ انڈیا موضوع ہے.
مارننگ شوز میں "توہین آمیز" میوزک بھی سب نے دیکھ لی، سماء پر بھی نشر ہوئی اور دوسرے چینل پر بھی! اور یہ توہین تو برس ہا برس سے مزارات اور خانقاہوں کی زینت بنتے رہے. جہاں خدا کے احکامات کے ہوتے ہوئے اللہ کا نام لے کر دما دم مست قلندر پر مخلوط بھنگڑے عام ہیں. یہ توہین روکنے کا کسے خیال آیا؟ کوک اسٹوڈیو میں صوفیانہ کلام پر مرد اور عورتوں کی دھما چوکڑی کسی ایک چینل نے بھی یہ موقع نہ چھوڑا. یوں سب گستاخی کے فاعل ہوئے.
ہوا کچھ یوں ہے کہ ان تمام گھوڑوں میں سے ایک گھوڑے پر چابک ذرا زور سے کیا پڑا کہ یہ تو رسی تڑا کے بھاگ نکلا اب گلے میں رسی نہیں تو منہ زوری اور آگئی ہے. گھڑسوار کو یہ ہرگز قبول نہیں لہذا اب سب گھوڑے یک دم چھوڑ دیے گئے کہ باغی گھوڑے کو جدھر پائیں رگڑ ڈالیں اس میں سبق بقیہ گھوڑوں کیلئے بھی ہے!!
کون دودھ کا دھلا ہے آئیں دیکھتے ہیں مبشر لقمان؟ جو کہ ملک ریاض سے پیسے لے کر شوز میں "کھری بات" کرتا ہے. جاوید چودھری جو اس ہی ملک ریاض کا بڈی ہے. مہر بخاری جن کی تصاویر سب کے ڈیکسٹاپ کی زینت ہیں یا پھر یو ایس کونسلیٹ میں ہونے والی نائٹ پارٹی میں شریک ہونے والے صحافی؟ ؟ نجم سیٹھی جو تجزیوں میں اداروں کا احترام بھول جاتا ہے. یا پھر کوئی اور... میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں سارے ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں... لٹکائیں تو سب کو ساتھ لٹکائیں ورنہ لوگوں میں یہ تاثر آئیگا کہ باقی ٹھیک ہیں.
پہلے بھی اور آج بھی اور تمام چینل پر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی توہین کھلے عام ہوتی تھی اور ہورہی ہے. یہاں صبح کا آغاز ناچ گانے بھرے مارننگ شوز سے ہوتا ہے اور یہ سلسلہ خبروں میں بیہودہ گانوں اور فلموں کی ریلیز کی خبروں سے ہوتا ہوا رات گئے تک جاری رہتا ہے. زیادہ دن نہیں گزرے جماعت اسلامی پارلیمنٹ میں میڈیا کی فحاشی کیخلاف ایک قرارداد لے کر گئی تو بہت سے جہلاء کی جانب سے تنقید سامنے آئی ریموٹ استعمال کا مشورہ دیا گیا... آج جیو نے یہی کیا تو انہیں ریموٹ استعمال کا خیال کیوں نہیں آیا؟
میں پھر بتا دوں میں جیو کی طرفداری نہیں کر رہا بلکہ میرا نکتہ سب کی منافقانہ روش بینقاب کرنا ہے. اس حمام میں سب ہی ایسے ہیں لہذا صاف کردو سب کو لیکن بے تکے مسائل اٹھا کر عوام کو جس چکر میں پھنسا کر سیاست کی جارہی ہے یہ غلط ہے.
مشرف کیس، جوئل کاکس کی گرفتاری، مذاکرات، نیٹو سپلائی، ڈرون بومبنگ، کراچی آپریشن ... سب خبریں ہی دب گئیں جیو غداری کیس میں ...
آئیں ایک بار نہیں بلکہ سو بار بائیکاٹ لیکن سب کا، پابندی سب پر، فتوی ایک کیخلاف آئے گا تو باقی جائز نہ سمجھ لئے جائیں لہذا فتوی سب کیخلاف، سب کو لائن میں کھڑا کیا جائے یا کمپین چلائی جائے تو سب کے خلاف ورنہ کسی ایک کو نشانہ بنایا گیا تو اگلی دفعہ چہرے تبدیل ہوجائیں گے کام وہی رہیگا اور کسی کو پتا بھی نہ چلے گا! کیوں کہ باقی سب تو "حلال" ہیں! !؟ کیوں؟

ابنِ سیّد
 
Image taken from here

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments