Monday, May 19, 2014

کچھ یادیں ہیں ان لمحوں کی...این ای ڈی یونیورسٹی ...جمعیت

آج این ای ڈی یونیورسٹی مینجمنٹ سائنس کا ٹیسٹ دینے گیا، یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ سیکیورٹی گارڈز ابھی تک بھولے نہیں محبت سے ملے حال چال پوچھا ٹیسٹ شروع ہوا مشکل تو بہت تھا کسی طرح مکمل کیا باقی قسمت کے سہارے کیا، دو گھنٹے بعد کلاس سے باہر آیا لیکن یونیورسٹی سے باہر جانے کے بجاۓ واپس اندر کی جانب چل پڑا. میرا ٹیسٹ سول ڈپارٹمنٹ کی کسی کلاس میں تھا جہاں سے چلتا ہوا میں مکینیکل ڈپارٹمنٹ کی جانب آیا، یہ ہے روم نمبر ساٹھ این ای ڈی میں داخلہ لینے کے بعد پہلی کلاس میری یہیں ہوا کرتی تھی ،کلاس کے اندر جاکر دیکھا، اِس کے سامنے ہی مکینیکل لیکچر ہال ہے جہاں اس دور میں فائنل ایئر میں کافی جماعتی ساتھی تھے اور سامنے ہی فرسٹ ایئر کلاس کی وجہ سے ان کا اور ہمارا رابطہ ہوا تھا. ہر کلاس کے بعد کوئی نہ کوئی حال چال پوچھنے آجاتا، اس ہی وجہ سے دوستی ہوئی اور جمعیت میں آنا ہوا. اس سے تھوڑا اندر کی جانب جا کر وہ تنگ سی گلی ہے جہاں پہلے ہی مہینے چند دوسری تنظیم کے لڑکوں نے مجھے روک کر نرم لہجے میں سوال کیا تھا کہ کیا بات ہے جماعتیوں میں بہت اٹھ بیٹھ رہے ہو؟ تھوڑی دیر اس ہی گلی میں رکا نہ جانے کیا دیکھتا اور سوچتا رہا اور پھر انڈسٹریل ڈپارٹمنٹ سے ہوتا ہوا مسجد آگیا، وضوخانہ میں لگے کولر سے پانی پی کر اُس جگہ آ کر بیٹھ گیا جہاں ہم روزانہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد جمع ہوکر قرآن کی ترتیل کیا کرتے تھے. کچھ لمحے نہ جانے کیوں وہیں بیٹھے بیٹھے گزارے. مٹیرئیل ڈپارٹمنٹ کی پیشانی پر لکھی قرآنی آیت کو دیکھتا ہوا واپس چل پڑا، مکینیکل سے دوبارہ گزرا اور آڈیٹوریم کے سامنے سے ہوتا جمعیت کے یونٹ پر آپہنچا جو کہ اتوار کی وجہ سے خالی تھا. کچھ دیر ان بِنچوں پر بیٹھا رہا بیچ میں لگے اس درخت کو دیکھتا رہا جو شاید کبھی بھی دھوپ نہ روک پایا لیکن اس ہی ہلکی سی چھاؤں میں ہم اور ہم سے پہلے بھی بہت سے لوگ گرمی سہتے بیٹھے رہتے تھے .. پھر کیفیٹیریا کی جانب آیا، شہید تسنیم منظر عالم شہید کی تختی کو دیکھتا اور چھوتا رہا، کیفیٹیریا کے آس پاس درختوں کے پاس ٹہلتا رہا، ایک درخت پر وہ مل گیا جو ڈھونڈ رہا تھا یہ "سیّدی" کا لفظ انگریزی حروف میں ہمارے ایک ساتھی نے لکھا تھا، کیفیٹیریا کے دروازے پر جمعیت کے اسٹیکر دیکھتا رہا اور پھر واپس باہر کی جانب چل پڑا...

نہ جانے کیوں ذہن کسی اور ہی زمانے میں چل رہا تھا، کبھی دوستوں کی ہنسی سنائی دیتی، تو کبھی ٹیچر کے ساتھ اٹھکیلیاں، کبھی نعرہ تکبیر کی صدائیں تو کبھی کچھ اور ... اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ کیا بھئی اتنا جذباتی کیوں ہوا جارہا ہے تو میں واضح کروں کہ میرے لئے یہ کوئی عام جگہ نہیں بلکہ بہت مقدس جگہ ہے اس ہی جگہ سے میں نے اپنی زندگی کے شعوری سفر کا آغاز کیا، جمعیت سے متعارف ہوا، شاید زندگی کے سفر میں ہم سب بھول بھال گئے آج اس ہی سبق تو دوبارہ یاد کرنے کچھ پل ان در و دیوار کے ساتھ بِتائے ...
شاید میں اپنے جذبات کا صحیح طور پر اظہار اس تحریر میں نہیں کر پارہا اور شاید کر بھی نہ پاؤں ...

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments