زبیدہ آپا وائٹننگ سوپ، اب گورا ہوگا پاکستان!
یہ اشتہار دیکھ کر ماتھا ٹھنکا، یوں لگا جیسے گورا نہ ہونا ایک جرم ہے ایک کمی ہے
کہ جس سے بچنا بےحد ضروری ہے۔ ساٹھ سال ہو گئے ہمیں انگریزوں سے آزاد ہوئے لیکن گوری
چمڑی کے سحر سے آزاد ہونے کیلئے شاید کافی وقت بلکہ وقت سے زیادہ ایک مثبت سوچ
درکار ہے! جنید جمشید معروف کپڑوں کے صنعتکار اور ماضی کے گلوکار ہیں انہوں نے ایک
دفعہ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایک زمانے انہوں نے میں ایک گانا بنایا تھا
"گورے رنگ کا زمانہ" لیکن پھر انہیں اس غلطی کا احساس ہوا جس کے بعد
انہوں نے اپنے ملک کے سانولے رنگ کے اوپر ایک گیت بنایا "سانولی سنلونی سی
محبوبہ"۔ جنید جمشید نے تو اپنی غلطی سدھار لی، بلکہ آج کل الحمدللہ دعوت و
تبلیغ سے وابستہ ہیں لیکن باقی افراد اپنی غلطیاں کب سدھاریں گے؟
کیا کالا ہونا اتنا بڑا جرم اور کیا یہ بہت بڑی
کمی ہے؟اتنی بڑی کمی کہ اس کیلئے مختلف نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اتنی محنت
کرنی پڑ رہی ہے۔ لیکن اس سب اشتہاری کمپین کے دوران شاید ہی کسی نے یہ بات سوچی ہو
کہ یہ اشتہارات ملک کی ایک بڑی اکثریت جو کہ سانولی اور کم رنگ کی ہیں ان کی دل
آزاری کا سبب بن رہے ہیں۔ لیکن انہیں کیا؟ انہیں تو پاکستان کی صورت میں اپنی
مصنوعات کی ایک بڑی مارکیٹ ایک بڑی کھپت مل رہی ہے اور وہ اس مارکیٹ کو اپنے معاشی
فائدے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
میڈیا عوام کی سوچ بناتا ہے اور عوام کے اندر پنپنے
والی سوچ کو میڈیا دکھاتا ہے۔ اس کالے رنک کو ایک "کمی" بنا کر پیش کیا
گیا اور اب اس کمی کو پورا کرنے کیلئے مختلف کمپنیاں سامنے ہیں۔ فیئر اینڈ لولی،
اولیویا، کیئرز، وغیرہ وغیرہ۔ ان اشتہارات میں اس طرح کے منظر کشی کرنا کہ ایک
لڑکی کا رشتہ اس کے گورے رنگ کی وجہ سے نہیں ہورہا پھر کوئی اس کو رنگ گورا کرنے والی
کریم استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ صاحبہ استعمال کرتی ہیں اور اگلے دن اٹھتی
ہیں تو گوری ہوتی ہیں (ویسے یہ اگلا دن زیادہ بتا دیا بعض تو منٹوں میں گورا کرنے
کا دعوی کرتے ہیں) بہرحال اسی لمحے ایک امیرزادے کی نظر ان پر پڑتی ہے اور وہ بے
دھڑک اپنی والدہ سمیت رشتہ لئے پہنچ جاتے ہیں۔ اشتہار کا اختتام شہنائیوں کی آواز
پر ہوتا ہے۔ کم و بیش رنگ گورا کرنے والی ہر کریم کے اشتہارات کی یہی تھیم ہوتی
ہے۔
ہمارے معاشرے کا بھی یہی المیہ ہے خواتین اپنے
بیٹے کیلئے چاند جیسی گوری بہو لانے کی جدوجہد میں نہ جانے کتنی ہی لڑکیوں کی دل
آزاری کر گزرتی ہیں۔چاہے لڑکا دن کی روشنی میں نہ دکھائی دیتا ہوں لیکن لڑکی ایسی
چاہئے جو رات کے اندھیرے کو بھی روشن کردے۔ نہ صرف شادی بلکہ دوسرے معاملات جیسے
جاب وغیرہ میں بھی لڑکیوں کو شکل و صورت کا فائدہ حاصل رہتا ہے اور دوسری جانب کم
رنگ اور سانولی رنگت والوں کو قابلیت ہونے کے باوجود نقصان۔
اپنی سرچ مجھے اولیویا کی ویب سائٹ تک لیگئی
جہاں میں نے پاکستان بھر میں خواتین کالجز میں چلنے والی انکی مہم کے بارے میں
پڑھا۔ جس میں ان کالجز کی طالبات کو اس کالے رنگ کی "بیماری" سے بچنے کے
ٹوٹکے ماہر بیوٹیشنز دیتی ہیں۔ کیا سکھایا جارہا ہے؟ یہی کہ کالا رنگ تمہارے لئے
ٹھیک نہیں رنگ گورا کرو تو فائدہ ہی فائدہ۔ اس سوچ کو ختم کرنے کی ضرورت ہے!
اس ہی سوچ کیخلاف
پڑوسی ملک بھارت میں "ڈارک اس بیوٹیفل" یعنی "گہرا رنگ خوبصورت
ہے" کے نام سے ایک کمپین چلائی جارہی ہے جس میں میڈیا کو اس "رنگ کے
تعصب" کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ رنگ کے حوالے سے مثبت یا
غیر جابندارانہ رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور ایسے معاشرے کو نمونہ بنا کر پیش
کیا جائے کہ جہاں پررنگ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ناروا سلوک روا نہ رکھا جائے اور
نہ ہی رنگ کو ایک کمی یا فائدہ نہ سمجھا جائے۔ اس معاملے میں ہمارے مذہب سے اچھی
تعلیمات کہیں اور نہیں ملیں گیں جہاں "کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے
کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت صرف تقوی کی بنیاد پر ہے" (مفہوم
حدیث)
ابن سید
No comments:
Post a Comment