Thursday, December 18, 2014

سانحہ پشاور اور ہمارا مجموعی رویہ


جب یہ سانحہ ہوا، پوری قوم کا دل غم سے لبریز ہوا، ہمارے دل زخمی تھے
ایسے میں جماعت اسلامی سامنے آئی،
سب سے پہلے جماعت کے رضاکاروں نے جائے وقوع پر پہنچ کر امداد شروع کی
الخدمت کے مرکز میں ہنگامی صورتحال تھی
الخدمت ایمبولینسیں روانہ ہوئیں
رضاکاروں نے شہداء کے کفن دفن جنازوں کا اہتمام کیا
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ہسپتال پہنچے
جماعت کے لیڈران کی واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت آئی
سراج الحق، لیاقت بلوچ، منور حسن، اور دیگر نے اس سانحہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی، اور سراج صاحب نے کہا کہ دہشتگرد یاد رکھیں قیامت کے روز یہ معصوم بچے اللہ کے ہاں فریاد کریں گےاور دہشتگرد ی کی یہ کارروائی اللہ کے غیظ وغضب کو بھڑکانے کا سبب بنے گی
اُس ہی شام جماعت اسلامی، جمعیت طلبہ، پاسبان وغیرہ کے افراد کراچی پریس کلب پر پہنچے اور اپنے غم کا اظہار کیا
ادارہ نور حق اور منصورہ میں اگلے دن عصر کی نماز کے بعد غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی، تمام شہروں میں اجتماعات میں دعا کی گئی اور فاتحہ خوانی کا انعقاد ہوا
سراج الحق اور دیگر قائدین کئی بچوں کی نماز جنازہ میں شریک ہوئے، کئی کے جنازوں کی امامت کی، کندھا دیا، لحد تک گئے
اس سانحہ پر ہمارا دل دُکھی ہے، دل غم سے لبریز ہیں
اور اِن تمام کاوشیں بدلے میں کچھ پانے کیلئے نہیں، نہ ہی کچھ چاہئے، نہ مانگتے ہیں، صرف آخرت کے اجر کی طلب
اور پھر بھی ہمارے خلاف چند متعصب افراد سوشل میڈیا پر متحرک، ہمیں دہشت گردوں کا حامی، ساتھی، مددگار بنانے پر تُلے ہیں، طرح طرح کی تصاویر، سراج صاحب کی تصاویر ایڈٹ کرکے، منور صاحب کے نام سے جھوٹے بیانات پھیلائے جارہے ہیں، جماعت پر پابندی کے مطالبات کئے جارہے ہیں، مخالفت در مخالفت، مسلکی تعصب کی انتہا دِکھائی جارہی ہے (گو کہ جماعت مسلکی جماعت نہیں)، ان سب افراد کو میرا یہ پیغام ہے
جماعت اسلامی ایک اسلامی شورائی جمہوری پُر امن جماعت ہے، جماعت نے اس سے بھی بُرے حالات میں کام کیا ہے، جماعت پر کئی آمِروں نے پابندی بھی لگائی، ہمارے منتخب ارکانِ اسمبلیوں کو شہید کیا، پھر بھی یہ وہ جماعت ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف نہ کھڑئ ہوئی نہ ہوگی اور نہ ہی ہم اس طرح کے کسی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں، لہذا ان تمام متعصب افراد کے مطالبات و اعتراضات کو ہم ردی کی ٹوکری کی نذر کرتے ہوئے انہیں پیغام دیتے ہیں۔۔۔
آسمان کا تھوکا اپنے ہی منہ پر آتا ہے اور ۔۔۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!!! انشاءاللہ
ابنِ سیّد

Tuesday, December 2, 2014

اور قلم ٹوٹ گیا!

اور قلم ٹوٹ گیا! 
(تحریر : اِبنِ سیّد)

"مگر ماں، یہ میرا شوق ہے" اس نے مچلتے ہوئے کہا، "یہ کیسا شوق ہے، نہ کسی سے مِلنا نہ جُلنا، نہ کھانے کا ہوش نے پینے کا، نہ پہننے اوڑھنے کا، میں تمہیں اپنی زندگی کیساتھ یہ کھلواڑ نہیں کرنے دوں گی" ۔۔ "مگر ماں! میں لکھنا چھوڑ نہیں سکتا، یہی تو ایک ایسا کام ہے جو میں بچپن سے کرتا آ رہا ہوں، میرا شوق میرا جنون، میری سب یادیں اس ہی شوق سے وابستہ ہیں" ۔۔۔۔ "بس!!! میں نے کہہ دیا تو کہہ دیا! "
"کیا تم نے کبھی سوچا؟ کہ کیسے گزارو گے ساری زندگی؟ کماؤ کے کدھر سے کھاؤ گے کدھر سے، تم اکیلے نہیں کئی اور جانیں تمہارے ساتھ جڑی ہیں، کون اٹھائے گا ان کا خرچ؟ تمہارے لکھنے کا کیا فائدہ؟"۔۔۔۔۔۔۔۔
"لوگ پڑھتے ہیں مجھے، لوگ میری باتوں کو سمجھتے ہیں، میرا ہر لکھا ہوا لفظ ان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، میں یہ صرف اپنے لئے نہیں، ان سب کیلئے کررہا ہوں، جو میرے لفظوں کیساتھ جڑے ہیں، جو میری بات سمجھتے ہیں، میں ان کے جذبات کا احترام کرتا ہوں، میں یہ نہیں چھوڑ سکتا، پلیــز سمجھا کریں۔۔۔"۔۔۔۔۔۔۔۔
"بس اب تمہیں ایک انتخاب کرنا پڑیگا، یا تو اپنی ماں کی بات مان لو اور لکھنا چھوڑ کر کوئی ڈھنگ کا کام کرو، یا پھر میرا تم سے کوئی تعلق نہ ہوگا، میں بھول جاؤنگی کوئی بیٹا بھی تھا میرا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیسے ناراض کرسکتا تھا اپنی ماں کو، اس رات وہ بہت رویا، باہر موسلا دھار برسات ہوتی رہی، گرج چمک، کان پڑی آواز بھی مشکل سے سنائی دیتی، اور پھر جب طوفان تھما، سورج نکلا۔۔۔۔ نہ جانے کیوں اُس کی ماں بےقرار سی ہوکر بیٹے کے پاس جا پہنچی،
چہرے پر وہی مٹھاس لئے، وہ اس کا ننھا منا سا لعل لگ رہا تھا، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اچانک چونک پڑی۔۔۔
پاس ہی اس کا قلم ٹوٹا پڑا تھا، اس کی آنکھوں میں خوف اُتر آیا، ٹوٹے ہوئے قلم سے نکلا ہوا لہو، جو نہ جانے کب سے بہتا ہوا اب جم کر کالا پڑ چکا تھا۔۔

ابن سید

Image from here

Thursday, November 27, 2014

صرف ایک ڈرون حملہ؟

صرف ایک ڈرون حملہ؟
تحریر: ابنِ سیّد

آج مشرف کا ایک بیان پڑھا: "میں نے تو صرف ایک ڈرون حملے کی اجازت دی تھی!" ۔۔۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں، دھرتی ماں ہوتی ہے مُش صاحب اور آپ نے تو اپنی ماں پر ایک حملے کی اجازت دے دی، کس قانون کے تحط؟ کس فارمولے کے تحط؟ کیا آپ کے "سب سے پہلے پاکستان" کے نعرے نے آپ کو یہ تعلیم دی۔ آج آپ کی خود کی والدہ ہسپتال میں ہیں، کیا "صرف ایک حملے" کی اجازت ان پر بھی دینگے؟
اب آپ کے "ایک ڈرون حملے" کی تفصیل دیکھیں: ٢٠٠٤ سے لے کر ٢٠١٣ تک امریکی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کی تعداد ٣٦٩ ہے جبکہ اس میں ان کے مطابق ٢٨٥١ افراد کی ہلاکت ہوئی جس میں سے ٢٢٩١ شدت پسند، ٢٨٦ سویلین اور ٢٧٤ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں معلومات ہی نہیں کہ کون تھے! اگر میں غطی پر نہیں تو 2004 میں بھی آپ ہی برسرِ اقتدار تھے!
بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کے اعداد مزید بھیانک ہیں ، حملوں کی تعداد ٣٨١، ہلاکتیں ٣٦٤٦، سویلین ہلاکتیں ٩٥١، بچوں کی ہلاکتیں ٢٠٠، زخمیوں کی تعداد ١٥٥٧. (تعداد زیادہ سے زیادہ ، جنوری ٢٠١٤)
مُش صاحب، یہ ہے آپ کا کِیا دَھرا، پاکستان کی سرزمین اور معصوم عوام، جن میں عورتیں اور بچے اور پورے کے پورے قبائلی جرگے شامل تھے انہیں آپ کے اجازت کردہ ایک ڈرون حملے نے اڑا دیا، کون دے گا اُن کا حساب، پاکستان کی عدالتیں تو آپ کو سزا دینا چاہتی ہیں، لیکن کیا کریں آپ "قوم کا وقار" ہیں، اور وقار کا حساب شاید اس پاکستان میں ممکن نہیں، انشاء اللہ تمام بدلے آخرت میں چکائیں گے، اس کی تیاری کریں!

ا-س

Wednesday, October 22, 2014

تین خبریں، تین کہانیاں


تین خبریں، تین کہانیاں
تحریر: ابنِ سید

آج ہر طرف روشنی ہے، ہر طرف خوشیاں، آج ہمارا قرآن مکمل ہوا، آج اس ہی خوشی میں تقریب ہے
اس تقریب میں کافی لوگ شریک ہیں، ہمارے استاد، اور وہ تمام بچے، جنہوں نے قرآن حفظ کیا
میں بہت خوش ہوں، اور میں ہی کیا میرے خاندان کے سارے افراد خوش ہیں
میرے والد اس تقریب میں شریک نہیں، وہ اس وقت گاڑی پر ہونگے،ٹرک جو چلاتے ہیں وہ، سارا ملک گھومتے ہیں
میں چشم تصور سے اپنی امّی کو وہ سند دکھاتا ہوں جو مجھے مدرسہ دے آج ملے گی، ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو دیکھتا ہوں
مگر مجھے کیا خبرتھی کہ۔۔۔

امی یہ ہر طرف اندھیرا کیوں ہے؟ بیٹا کرفیو لگا ہے
امی کیا ہم باہر نہیں جاسکتے؟ نہیں بیٹا!
امی مجھے بھوک لگی ہے، نہیں بیٹا ہم آگ نہیں جلا سکتے، نہ ہی کھانا پکا سکتے ہیں۔
امی۔۔۔۔ میرا بھوک سے برا حال ہو رہا ہے
امی ہم بہت دیر سے بھوکے ہیں، امی کھانا کھلا دیں
اچھا بیٹا، میں آگ جلاتی ہوں، یہ خطرہ مول لینا ہی پڑیگا، میں تمہاری بھوک کے آگے بےبس ہوں!
خبر: طالبان کے کئی ٹھکانوں فضائی حملے ، کئی شدت پسند کمانڈر ہلاک

ماں! کیا کریں ہم تو اس علاقے میں پھنس ہی گئے، ہمیں واپس گھر جانا ہوگا
بیٹا چلتے ہیں ذرا رک کر ابھی پولیس ہر طرف گھوم رہی ہوگی، ہمارے پاس پاسپورٹ تو ہیں لیکن یہ کمبخت رشوت لئے بنا کہاں چھوڑتے ہیں
چلو بیٹا نکل چلو! ماں! مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے ہمیں دیکھ لیا، ماں وہ دیکھو ایک رینجرز کی چوکی، چلو اُن سے چل کر پولیس کی شکایت کرتے ہیں وہ ہی ان کو ٹھیک کریں گے!
ماں انہوں نے ہمیں یہاں روک کیوں لیا، ماں کیا ہم خطرے میں ہیں؟ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ماں۔۔۔
ماں یہ فائرنگ کیوں کررہے ہیں، ماں کہیں ہمیں لگ نہ جائے، بہت خون بہہ رہا ہے ماں۔۔۔۔ اللہ رحم


ابنِ سید

Thursday, October 9, 2014

ردِ عمل

Image from here
ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈک سے پورا کانفرنس روم ڈیپ فریزر جیسا ہورہا تھا، ٹیبل کے گرد آرام دہ کرسیوں پر اَکڑے تھری پیس سوٹ پہنے ایگزیکٹیوز ہمہ تن گوش تھے، جبکہ دوسری جانب وہ اپنی رَو میں سب سے مخاطب تھا، اس کا انداز دلفریب اور دلائل مضبوط تھے، اس وقت وہ ملک کے مشرقی حصے کی صورتحال پر اظہار ِخیال کررہا تھا، سب دم سادھے اس کی باتیں سن رہے تھے، سوالات کی ممانعت نہ تھی پھر بھی بیچ میں اِکا دکا سا محتاط سا ہاتھ اٹھتا اور وہ اس پر سوال کرنے والے کے سوال کا مدلل جواب دیتا جو کہ ممکنہ اگلے کئی سوالوں کا بھی جواب ہوتا ، اس کی آواز میٹنگ روم کے آخر تک پہنچ رہی تھی،      "سر اِس خطہ میں ہمارے اندازے کے مطابق ایک لاکھ کے قریب دہشت گرد چھپے ہیں ، یہ ہمارے ملک کے لئے ہندوستان کے بعد دوسرا بہت بڑا خطرہ ہیں، بلکہ میں تو اپنے پیش روؤں سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہے، بحیثیت ایک اسٹریٹیجیک دفاعی تجزیہ کار اپنی گورنمنٹ اور سیکیورٹی اداروں کو میرا یہی مشورہ ہوگا کہ تمام ملٹری اس علاقہ میں لگا دی جائے۔۔۔" مزید کچھ دیر تک اس کی آواز گونجتی رہی، ۔۔۔"ہم ڈرون حملوں سے بھی بہت مدد حاصل کرسکتے ہیں!۔۔" اتنا کہہ کر وہ مسکرانے لگا، "لیکن سر!۔۔۔۔" ایک ہاتھ سوال کیلئے بلند ہوا۔۔۔  "جناب! کیا اس صورت میں سویلین اموات جنہیں ہم  کولیٹرل ڈیمیج کے نام سے پکارتے ہیں ، کیا  ان کی تعداد نہیں بڑھ جائے گی؟ اور کیا ہم عرصہ دراز سے اس کے نتائج نہیں بھگت رہے؟"۔۔۔ "اچھا سوال ہے!"۔۔ وہ گویا ہوا،"دیکھیں ! قومیں قربانی دیتی ہیں ، جب ملک حالت ِجنگ میں ہو، تو دو طرفہ حملوں سے کولیٹرل ڈیمیج اور سویلین  کی اموات ناگزیرہیں، لہذا میں اس سلسلے میں اتنا ہی کہوں گا جہاں سو دہشتگرد مارے جائیں اور وہاں بیس سویلین اموات ہوں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے" ۔۔۔۔۔۔ "ایک منٹ سر!" وہ بولنے ہی لگا تھا کہ کسی نے اس کی بات کاٹ دی، "وہ پیچھے دیکھے بغیر گویا ہوا،  "ہمیں اس پریزنٹیشن کو مکمل کرنا ہے،لہذا مختصر سوال کریں۔۔"
"جی سر لیکن میری بات مکمل ہوجائے"، یہ کوئی اور نہیں بلکہ چائے سرو کرنے والا بوڑھا تھا، جو اس میٹنگ کے شرکاء کو چائے دینے کیلئے کمرے میں آیا تھا،  "سر جی! ان ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر، نرم کرسیوں کے درمیان، یہ سو پر بیس اموات کی منظوری دینا آسان ہے۔۔۔سر ہمارے کچے گھروں میں تپتی دھوپ میں آ کر دیکھو، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ میرا پورا خاندان تھا، میری بیوی ،معصوم بچّے اور میرا بوڑھا باپ، سر جس سویلین اموات کی آپ بات کررہے ہیں وہ ہمارے جرگہ کہ سرکردہ افراد تھےیہ وہ بزرگ تھے جن کی عزت پورا علاقہ کرتا تھا، ہمارے علاقہ کے نمائندگان  ، سر جس سویلین اموات کی آپ اجازت دے رہے ہیں وہ ہمارے مدرسے میں پڑھنے والے معصوم طلباء اور ان کے اساتذہ تھے۔۔۔ سر !ہم موت سے نہیں ڈرتے ، وہ تو برحق ہے ایک دن آجائے گی، اور جو مرگئے اُن کی اُس ہی دن لکھی تھی، لیکن سر !مرنے کے بعد ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ ہم پر دہشتگرد کا لیبل چسپاں کیا جائے، ہمیں غیر ملکی کہا جائے، ہمیں ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا تمغہ ملے ، سر ۔۔۔ موت برحق ہے، اور جیسے مجھے اپنی موت کا یقین ہے، ویسے آپ سب کی موت کا بھی یقین ہے، اور جیسے اِدھر ناانصافی پر مایوس ہوں، میں آخرت میں مکمل انصاف پر پُر امید ہوں۔۔۔!!"
اتنا کہہ کر وہ اپنی ٹرے اٹھا کر پلٹ گیا، روم سے باہر  نکلتے ہوئے اس نے ایک بار پلٹ کر دیکھا، سب کے سر جھُکے ہوئے تھے۔کسی میں سوال کی ہمت نہ تھی، نہ جواب کا حوصلہ ، شاید ۔۔۔۔سب کو اپنے سوالوں کا جواب مِل چکا تھا! یا پھر وہ سب کے ذہن میں ہزاروں کُلبلاتے سوال چھوڑ گیا تھا!
ابن ِسید

Friday, October 3, 2014

گل پری

پیشگی معذرت کیساتھ۔۔۔۔ بعض لوگوں کے نام سے ایسا کیوں ظاہر ہوتا ہے جیسے کہ صنف نازک کے نام ہیں، مثال کے طور پر ہمارے آفس میں ایک صاحب ہیں جن کا نام نور ہے، محمد نور، اب جب میں کبھی ان کے بارے میں بات کروں تو جملہ کچھ یوں ہوگا "یار میں نے نور سے بات کرلی ہے"۔۔ اب آفس میں تو ٹھیک ہے سب جانتے ہیں کون ہیں وہ،لیکن اگر میں محلے میں یا دوستوں میں اس طرح کا جملہ کہتا پاؤں تو آگے سے کوئی عامر لیاوت والے اسٹائل میں کہے گا۔۔۔ اوہوں! نور سے کیا باتیں ہورہی ہیں۔۔ اب انہیں کون بتائے کہ نور ایک مکمل باریش انسان ہے
اس ہی طرح ہمارے اسکول میں ایک ساتھی ہوتے تھے، "گل"۔۔۔ جب کہ ایک خاتون بھی ہوتی تھیں "گل"۔۔۔۔ اب دوستوں میں بات کرتے کہ گل نے یہ کہا تو آگے سے سوال آتا۔۔ گل سے کب سے بات چیت ہوگئی تمہاری۔۔۔ اب سمجھاؤ انہیں یہ والا نہیں ۔۔ وہ "مرد" والا گل ۔۔ تو پھر سمجھ آتی۔۔ ؛)
یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے، اتنا تو بندہ سہہ لے، لیکن ہمارے اسکول میں ہمارا ایک دوست تھا جس کا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔"انعم"۔۔۔۔۔۔۔ اب بولیں۔۔۔
ویسے جس طرح آج کل نت نئے فیشن آرہے ہیں، مردوں کے کرتا شلوار پر بھی ڈوپٹہ لازمی جز بنتا جارہا ہے، عجب نہیں کل کو وہ ڈوپٹے کرتے والے افراد باپ بنیں تو اپنے بچوں کے نام بھی کہیں نازکی سے متاثر ہوکر نہ رکھ دیں۔۔۔۔
اس بات پر گل نوخیز اختر کی ایک تحریر یاد آگئی ۔۔۔ خط و کتابت میں ان کی کسی سے قلمی دوستی ہوگئی، ایک دن ان کے دوست نے ان کو لکھا، "تم بہت نخرے کرتی ہو" جس پر ان کا دماغ کھٹکا اور انہوں نے اپنی ایک تصویر بمعہ ریش بھیج دی۔۔۔ جس پر انکے دوست کا دکھ بھرا خط موصول ہوا، کہنے لکھے "گل تیرا ککھ نہ رہے! میں نے تو ماں کو بھی راضی کرلیا تھا"
ابن سید

نوٹ: جن لوگوں کے اس سے ملتے جلتے نام ہیں ان سے معذرت تحریر بس ذرا موضوع تبدیل کرنے کیلئے لکھی گئی ہے۔

Friday, September 26, 2014

مذہب کا استعمال؟

بہت سے لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض سامنے آتا ہے کہ ہم اسلام کے نام پر سیاست یا اسلام کو "استعمال" کررہے ہیں۔ ان سب کیلئے چند استعمال یا نام پر سیاست کی مثالیں دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ بخوبی فرق واضح ہوجائے۔
١، ایم کیو ایم کا تعصب پر مبنی پارٹی ہونے کے باوجود "مہاجر" کا لفظ استعمال کرنا اور اس ہجرت کو اسلام کیلئے ہجرت کے طور پر بیان کرنا اور ایسا بنا کر پیش کرنا کہ گویا وہ اسلام کی خدمت کررہے ہیں۔
٢، تحریک انصاف کی جانب سے بیشتر نعرے جن میں "ایاک نعبد و ایاک نستعین" والا نعرہ جس موقع پر لگایا جاتا ہے اس وقت بیک گراؤنڈ میں موسیقی چل رہی ہوتی ہے۔ خود کو ایک سیکیولر پارٹی کہنے کے باوجود اپنے فائدہ کیلئے اسلامی اقدار کا سہارا لینا۔
٣، مسلم لیگ کی پنجابی قوم پرستی کے باوجود اپنے علاقائی سیاسی فائدہ کیلئے کالعدم مذہبی جماعتوں سے تعلقات رکھنا۔
٤، اے این پی کا ایک نیشنلسٹ پارٹی اور سرخ انقلاب کے دعوے دار ہونے کے باوجود رمضان میں چاند کے معاملے میں ٹانگ اڑانا اور اس پورے conflict کو اپنی سیاسی بقا کیلئے استعمال کرنا۔
٥،پیپلز پارٹی، لبرلزم کی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود فیصل رضا عابدی کو خود کو ایک مذہبی رہنما کے طور پر سامنے لانا اور اس مذہبی طریق کو اپنی سیاست میں مکمل اس طرح استعمال کرنا کہ مذہبی شناخت ہٹ جائے تو سیاسی کیریئر صفر پر آجائے۔
کیا یہ ہنسنے کا مقام نہیں؟ کہ مذکورہ تمام افراد جو اپنی اپنی بساط پر ایک طرف مذہب کو سیاست سے الگ سمجھتے ہیں اور سیکیولرزم کے دعوےدار ہیں (علاوہ مسلم لیگ) اور دوسری جانب جہاں موقع ملے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کیلئے اسلام کا استعمال ناگزیر سمجھتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد اپنی اجتماعی زندگیوں میں مذہب کا راستہ روک دیتے ہیں۔ اس طرح کے افراد کو کیا یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ جماعت پر تنقید کریں جب کہ ہم کھلے عام اسلام کا سیاست میں عمل دخل ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے ہر ہر انفرادی اور اجتماعی معاملے میں اسلام کی شمولیت کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے بغیر اپنی تحریک کو نامکمل سمجھتے ہیں، میرا خیال ہے اب "دین کو اساسِ کل سمجھنا" اور "دین کے استعمال" کا فرق واضح ہوگیا ہوگا۔


ابنِ سیّد

Tuesday, September 23, 2014

پارلیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگاۓ بوڑھا

امی امی یہ پارلیمنٹ کی دیوار سے ٹیک لگاۓ بوڑھا کون ہے؟ کہیں جاتا کیوں نہیں ۔۔۔
بیٹا بہت سال پہلے سنہء ٢٠١٤ میں ہمارے ملک میں ایک شخص نے انصاف کا نعرہ لگایا تھا۔۔ ایک نیا پاکستان بنانے کیلئے دھرنا دیا تھا ۔۔۔ یہ وہی شخص ہے۔۔۔
لیکن انصاف کا مطالبہ ۔۔۔ یہ تو اچھی بات ہے پھر اس کیساتھ ایسا کیا ہوا؟ آج یہ اس حال میں کیوں ہے؟
(مسکراتے ہوئے) ۔۔۔ بیٹا اپنی گاڑی تو لاؤ ۔
دیکھو بیٹا۔۔ یہ ایک گاڑی ہے اس میں چار پہیے لگے ہوں تو چلتی ہے۔ اب اگر میں اس کے پہیّے نکال دوں تو کیا یہ چل پائے گی؟
نہیں!
چلو اب ان پہیوں کی جگہ میں پتھر لگا دوں۔۔ کیا اب چل پائے گی؟
بالکل نہیں!
چلو ایک اور تجربہ کرتے ہیں ۔۔ ان پہیوں کی جگہ چار مزید گاڑیاں لگا دیتے ہیں اب تو اس کی رفتار تیز تَر ہوجائے گی۔۔۔ ہیں ناں؟
ہاں! ضرور۔
لیکن اگر ان چاروں گاڑیوں کی سمت الگ کردوں۔۔ اب؟
پھر تو ایک قدم بھی نہ چل پائے گی۔۔۔
بس بیٹا! یہی وجہ تھی۔۔۔ یہ شخص ایک مخلص انسان تھا، اس کیساتھ گاڑی کے پہیوں کی مانند مخلص ٹیم تھی جو اس کا ساتھ دیتی تھی اس کو آگے بڑھاتی تھی، عوام کی خدمت کیلئے ہسپتال بنائے، کالج بنائے، سیاسی جماعت بنائی ۔۔۔ لیکن پھر تیز رفتاری کے شوق میں ان پہیوں کو نکال باہر کیا اور ان کی جگہ بھاری بھرکم گاڑیاں لگالیں، پھر کیا ہونا تھا ان تمام بڑی گاڑیوں نے الگ الگ سمت دوڑنے کی کوشش کی اور اس سعی میں کہیں بھی نہ جاسکیں۔ سمجھے؟
جی امی!
بیٹا سیانے کہتے ہیں "اِسپیڈ تھِرلز، بَٹ کِلز!"
ابنِ سیّد
Top of Form


پلیز کَم ہیئر

ایک بچّے نے اسکول میں سیکھا
کسی کو بلاتے ہیں تو کہتے ہیں: پلیز کَم ہیئر
گھر گیا، ماں کو کہا:  مما ! پلیز کم ہیئر۔۔۔۔۔۔
ماں بہت خوش ہوئی، کہنے لگی  واہ شاباش ۔۔۔۔  
پھر کہا :  اچھا اب اگر تمہیں مجھے کہنا ہو کہ ممّا کمرے سے باہر جائیں تو کیسے کہو گے؟
بچہ نے سوچا سوچا سوچا پھر کمرے سے باہر جا کر بولا:  مما ! پلیز کَم ہیئر  ۔۔۔۔۔۔

تحریک انصاف کی گو نواز گو تحریک بھی اس ہی طرح لگنے لگی ہے۔۔ لاہور میں کہو گو نواز گو، اسلام آباد میں کہو گو نواز گو، مگر کراچی میں آکر کیا کہنا چاہیے؟ گو نواز گو؟ یا۔۔۔۔۔۔

ممّا ! پلیز کَم ہیئر۔۔۔۔۔!


ابنِ سیّد

Friday, September 19, 2014

لاپتہ۔۔۔۔

ٹھاہ!! زناٹےدار تھپڑ کی آواز سنتے ہی کمرے میں سنّاٹا چھا گیا۔ مارنے والا خود چونک پڑتا ہے۔۔۔
"بتا!!!!! کس کے کہنے پر آیا تھا یہاں؟؟؟" ۔۔۔ "کسی کے نہیں جناب" آگے سے گھگھیاتی روتی ہوئی آواز آتی ہے ۔ "تو ایسے نہیں مانے گا" ایک اور زناٹےدار تھپڑ پڑتا ہے۔
"سر جی انہوں نے اپنے کئی سپاہی بھی زخمی کردیے سر۔۔۔" پیچھے سے ایک اور لقمہ دیتا ہے "سر جی کئی ایک تو آئی سی یو میں ہیں" ۔۔۔ "تو شرافت کی زبان نہیں سمجھے گا!!!" اس کیساتھ سب اس پر پل پڑتے ہیں۔ اور چینخوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہیں سے تھپڑ تو کہیں سے لاتیں تو کہیں سے گھونسے، گالیاں اور بپھتیاں بونس میں۔ "چل ڈھیٹ ہڈی بتادے کس نے بھیجا، لے اپنے کیپٹن کا نام، تجھے کچھ نہیں کہیں گے، چل شاباش ۔۔۔۔ ۔ فر فر بول۔۔۔ ہاں حوالدار، بیان لکھ اس کا"۔۔۔ روتے، ہکلاتے ہوئے اس نے کہا "مجھے بھیجا ہے۔۔۔" سب بغور سننے لگے۔۔۔ "مجھے۔۔۔ مجھے میرے پیٹ نے بھیجا ہے، چار دن فاقے کرنے کے بعد جب مجھ سے بھوک برداشت نہ ہوئی، بچوں کے رونے کی آوازوں نے مجھے نکلنے پر مجبور کیا۔۔میں نے سوچا جلسے میں جاؤںگا تو کچھ کھانا ہی مل جائے گا۔ ۔۔۔ بس اس ہی لئے ادھر آیا تو یک دم لاٹھی چارج شروع ہوگیا۔۔۔ سر میں تو بس۔۔ بھوک سے مجبور تھا سر۔۔۔ "۔۔۔
سب سر جھکے ہوئے تھے۔ وہ اٹھ کے جانے لگا، کسی نے روکا نہیں۔
باہر جلسے کے اسٹیج سے اعلان ہورہا تھا۔۔۔پولیس ہمارے افراد کو فوراً رہا کرے ، سینکڑوں ساتھی لاپتہ ہیں، احتجاج جاری رہیگا، دھرنا ہوگا، دھرنا ہوگا۔۔۔
ابنِ سیّد

Friday, September 12, 2014

ناکام عشاق کے نامراد اسٹیٹس

فیس بک پر آج کل بعض لوگوں کا مشغلہ اپنی ناکام محبت کے بارے میں اسٹیٹس پوسٹنا اور اپنا یہ کینسر دوسروں تک منتقل کرنا ہے. یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بندہ خودکشی کا خط جسے (suicide note) بھی کہتے ہیں اس کی فوٹوکاپیاں کرکے بانٹنا شروع کردے. یہ دوسروں تک اپنا بلڈ پریشر منتقل کرنے کی ایک ناکام کوشش ہوتی ہے اور کم ہی یہ تیر نشانے پر بیٹھتا ہے. ان دِل جلوں کہ اسٹیٹس کچھ اس طرح ہوتے ہیں جیسے کہ "آج پھر یاد آئی" "آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ" یا پھر پروین شاکر اور وصی شاہ کی بعض ڈپریشن زدہ نظمیں. اکثر اوقات اپنی فرینڈ لِسٹ میں موجود "ایک آدھ" خاص شخص کو مذکورہ اسٹیٹس پڑھانے کیلئے باقی سب کے منہ کا ذائقہ خراب کرنا ضروری سمجھتے ہیں. توجہ کے متلاشی aww aww ٹائپ کے کمنٹ کا شدت سے انتظار کرتے ہیں. جیسے آپ کو پتا ہے کہ زہر کو زہر مارتا اور لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ جیسے ہی اس طرز کا پھپھوندی لگا اسٹیٹس دیکھیں، آپ بھی کمنٹ کی صورت میں بےتحاشا زہر اگل دیں، پھر یا تو آپ انفرینڈ ہوجائیں گے یا پھر اگلا سدھر جائے گا : Pٹرائی شرط ہے.

ابنِ سیّد

Monday, August 25, 2014

سیاسی خودکش حملہ

image from here
میں انتظار میں تھا کہ یہ قصہ ختم ہو تو ایک آدھ تفصیلی کالم لکھوں لیکن یہ تو شیطان کی آنت اور موم کی ناک کی طرح کھنچتا اور اپنی ہیئت تبدیل کرتا جارہا ہے۔ اس وقت دارلحکومت میں ایک گروہ اپنی انا کی جنگ لڑ رہا ہے، لیکن اب گروہ سے زیادہ یہ جنگ اس لیڈر کی اپنی ذات کی اور عزت کی جنگ بن چکی ہے، ہر نیا دن ایک نیا مطالبہ اور ہر مطالبہ ڈھیروں شرائط اور پھر نتیجہ وہیں کا وہیں، لاکھوں کا مجمع چلا اور ایک لیڈر نے کھڑے ہو کر نوے ہزار موٹر سائیکلیں بھی گن لیں لیکن جب یہ مجمع دارلحکومت پہنچا تو بن دھلے کپڑے اور نئی نویلی دلہن کی طرح سکڑا سمٹا سا لگا، یہاں تک کہ لیڈران کو التجا کرنی پڑی کہ خدا کیلئے گھروں سے نکل آؤ اور اس جلسے میں شامل ہوجاؤ۔
معاملات تو اس وقت ہی شروع ہوچکے تھے جب بارہ مئی سے کچھ عرصہ پہلے عمران خان صاحب نے کہا تھا کہ ہم بارہ مئی کو دھاندلی کا ایجنڈا لے کر یومِ سیاہ منائیں گے، اس دوران (علامہ) طاہر القادری بھی اس میں شامل ہوگئے۔ کچھ لوگوں کی جانب سے اس جلسے کے اوپر بحث ہوئی تو پتا چلا عوام اب اس دھرنے، الزامات کی سیاست سے اکتا چکی ہے۔ نیا پاکستان کا وعدہ جو کہ بارہ مئی 2013 کا تھا، اب 2014 تک بھی نہ پورا ہوچکا، وہ کرپشن جو کہ 90 دن کے اندر ختم ہونے والی تھی وہ 365 دن کے بعد بھی اپنے حال کی منتظر ہے۔ غرض عوام کی سوچ بہت حد تک تبدیل ہوچکی تھی، الیکشن کے دوران خان صاحب کی مقبولیت کے حوالے سے جو سروے ہوئے بہت ممکن ہے کہ ان سرویز کا بھی نتیجہ بدل چکا ہو۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ لندن میں ایک میٹنگ کے بعد ایک بڑی تحریک کا اعلان ہوا اور دن چنا گیا 14 اگست، تحریکِ انصاف کے دوست جن میں سرفہرست جماعت اسلامی ہے کے امیر نے اس پر یہ بھی کہا کہ 14 اگست ملکی اتحاد کا دن ہے اس کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑہایا جائے۔ لیکن جوش، طاقت، اور کسی حد تک غرور و تکبر نے اس کو رکنے ہی نہ دیا۔ کاش تحریک سے پہلے ایک اور سروے کروا لیا جاتا۔
مجھے یاد ہے الیکشن سے پہلے جماعت اسلامی اور تحریک انصاف میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات طے ہوئی مگر پھر تحریک انصاف کے اسی اوور کانفیڈینس نے اس کمیٹی کو آپس میں ملنے نہ دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ تحریک انصاف صرف ایک ہی صوبہ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکی، کراچی مکمل طور پر سپرد کردیا گیا، کہنے کا مقصد یہ کہ کاش ان غلطیوں سے سبق سیکھا جاتا، اس اوور کانفیڈینس کو کم کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی مزاج اِدھر بھی دیکھنے میں آیا، 14 اگست مارچ کے اعلان کیساتھ ہی نہ اتحادیوں سے پوچھا گیا اور نہ ہی کسی اور سے، قادری صاحب کا اشیرباد ملا اور پھر مارچ کا اعلان ہوگیا۔
14 اگست آگئی، انقلاب جلسہ گاہ بھی نہ پہنچا، 15 اگست آگئی عوام انتظار کرتی رہی، 16 اگست جلسہ کا آغاز ہوا، لیکن عوام دیکھ کر حیران رہ گئی جب اس ہی رات عوام کے ہجوم سے سارے لیڈران رات گزارنے اپنے نرم بستروں کی جانب چل پڑے۔ یہ عوام کیلئے ایک دھچکا تھا۔ پھر اتوار بھی گزرا، پیر کو لوگوں کے آفس جانے کا وقت آگیا لیکن انقلاب نہ آسکا، پھر ٹیکنوکریٹ کی حکومت کا مطالبہ اور ہاشمی صاحب کی ناراضگی، ہاشمی صاحب مانے تو ایک اور دن گزر چکا تھا۔ پھر سول نافرمانی کا حکم آیا پھر اس پر بھی یو ٹرن لینے کے بعد ریڈ زون میں داخلے کی دھمکی ، پھر کچھ یوں ہوا کہ "جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے"۔ جی ہاں، فوج نے بیان دیا کہ سرکاری عمارات کی حفاظت فوج کی ذمی داری ہے لہذا سب اپنی اپنی جگہ پر رہیں۔ پھر ریڈ زون میں داخلہ ہوا۔ پہلے کہا گیا کہ چور ڈاکوؤں سے کوئی مذاکرات نہیں ہونگے پھر مذاکرات بھی شروع ہوئےشرائط بھی تسلیم ہوئیں۔
آج جب ان سطور کو لکھا گیا تو اس معاملے تو دس دن پورے ہو چکے ہیں، انقلاب اور آزادی کا نام ایک گالی کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بیشتر کالم نگار اس بارے میں اپنا اظہار خیال کرچکے ہیں اور اس کوشش کو مارشل لاء کی اس دعوتی تحریک کا نام دے چکے ہیں جس میں مہمانوں نے شرکت سے انکار کردیا۔ سوشل میڈیا میں جنگ اور طوفانِ بدتمیزی کا ایک نیا دور شروع ہوچکا ہے، چہرہ بچانے کے کئی موقع خان صاحب گنوانے کے بعد اب ایک ڈیڈ لاک میں آکر پھنس چکے ہیں اور حالت وہی ہے "کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی"۔عوام اس گیم سے اکتا کر چینل تبدیل کرچکی ہے۔ ایک انقلابی عوامی لیڈر اپنی غلطیوں، ناسمجھیوں اور بےاعتماد حواریوں کی وجہ سے سیاسی خودکش حملہ کرچکا ہے۔ مجھے خان صاحب اور انکے چاہنے والوں سے ہمدردی ہے اور رہیگی۔

ابن سید (سید اویس مختار)

Friday, August 15, 2014

لیڈر

اور پھر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی بوچھاڑ ، پولیس ہر جانب سے آکر ٹوٹ پڑی، یہ نہیں دیکھتی کہ یہ بوڑھا ہے کہ جوان، کمزور ہے کہ طاقتور، اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی جس کی داڑھی کے بال سفید ہوچکے ہیں چٹان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے، ڈنڈے کھاتا ہے گرفتار ہوجاتا ہے، یہاں نہ پلٹ پروف ٹرک ہے نہ کنٹینر، یہ اس وقت تک کھڑا رہتا ہے جب تک اس کے کارکناب باحفاظت گھروں کو نہ چلے جائیں، اور پھر گرفتاریاں اور قید و بند ۔۔۔ یہ ہیں قاضی حسین احمد
اور پھر میری آنکھوں نے چشمِ تصور سے یہ بھی دیکھا کہ مصر کا رابعہ اسکوائر ہے اور وہاں پر تاریخ کا بد ترین قتل عام کیا گیا، ڈھیروں لوگ مارے گئے، اندھا دھند فائرنگ، مارنے والے پولیس والے بھی ہیں اور غیر پولیس والے بھی جو اونٹوں پر تلواریں لئے جھنڈ میں بلا تفریق سب کو کاٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔ اور پھر ایک معروف لیڈر کی بیٹی شہادت کا رتبہ پاجاتی ہیں۔۔۔ یہ ہیں اسماء البتاجی، جو شہادت کا رتبہ پاتی ہیں اور انکے والد ملٹری آمر سیسی کے ہاتھوں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ یہاں نہ اقرباء پروری نہ اپنی حفاظت کا معاملہ بلکہ سب سے پہلے لیڈران اور انکے اہل خانہ اپنی جانیں دینے کیلئے آگے بڑھتے ہیں ۔ ۔۔
اور پھر میں دیکھتا ہوں مرسی جو نامعلوم مقام پر قید کردیا جاتا ہے، اور پھر میں دیکھتا ہوں شیخ یاسین جو کہ ایک اپاچی کا نشانہ بنتے ہیں، اور اس ہی طرح کی ہزاروں مثالیں ۔۔ ۔
میں حیران ہوں کہ انہیں کیوں اپنی حفاظت کا خیال نہیں، کیوں یہ اتنے سر پھرے ہیں نہ بلٹ پروف جیکٹ پہنتے ہیں نہ بم پروف کنٹینر، نہ حفاظتی گارڈز کا جھنڈ رکھتے ہیں اور نہ ہی ہٹو بچو کی صدائیں، کیا انکی جانوں کو خطرات نہیں۔ ہیں! بالکل ہیں سب سے زیادہ ہیں لیکن یہ لیڈر ہیں! لیڈر! اور ایسے ہی لوگ انقلاب لاتے ہیں۔
سن لو میرے دوستوں، ٹھنڈے کمروں اور بند کنٹینروں سے انقلاب کے سوتے نہیں پھونٹتے!

ابن سید

میرے، آپکے، ہم سب کے، سراج الحق

کل ایک محفل میں ایک صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا، لیکن بیان کرنے سے پہلے وضاحت کی کہ وہ نہ جماعت کے کارکن ہیں نہ ہی حامی یا سپورٹر، لیکن وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ سراج الحق کے ساتھ ایک میٹنگ میں تھے کہ سراج صاحب کے موبائل پر انکے گھر سے کال آئی اور یہ اطلاع دی گئی کہ گیس والے لائن کاٹ کر چلے گئے ہیں ۔ ۔ ۔ اس ہی محفل میں بیٹھے ایک اور صاحب نے یہ واقعہ بھی سنایا کہ سراج صاحب جب الیکشن کمیشن اپنا نامزدگی کا فارم جمع کرانے لے گئے تو پریزائڈنگ افسر نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ آپکی بینک اسٹیٹمنٹ تو کہہ رہی ہے کہ آپکے اکاؤنٹ میں صرف #تین سو روپے ہیں، آپ الیکشن کیسے لڑیں گے، سراج صاحب نے جواب دیا کہ الیکشن پیسوں سے نہیں بلکہ عوام کی حمایت سے لڑا اور جیتا جاتا ہے، بعد ازاں سراج صااحب نے یہ کر بھی دکھایا۔ اس واقعہ کی اطلاع کسی طرح جماعت کے احباب کو ہو گئی اور اگلے ہی دن سراج صاحب کے اکاؤنٹ میں بہت سے افراد نے پیسے بھیج دئے جو کہ لاکھوں میں تھے۔ سراج صاحب نے وہ پیسے فوراََ ہی جماعت اسلامی کے اکاؤنٹ میں یہ کہہ کر ٹرانسفر کردئے کہ یہ پیسے مجھے نہیں بلکہ جماعت کو دئے گئے ہیں۔
پاکستانی ساری زندگی ایسے لیڈر کی تلاش میں رہے جو ان کا اپنا ہو، جو عوام میں سے ہو، جو عوام کا درد سمجھے، جو انکی بھوک پیاس کی تڑپ کو سمجھ سکے، لیکن جب ایک ایسا لیڈا 'سراج الحق' کی صورت میں انکے سامنے آتا ہے تو نہ جانے کیوں وہ اس سے نظریں چرا لیتے ہیں، شاید عوام ایک اچھے اور خدا ترس لیڈر کے قابل اب تک نہیں ہو سکے!

سید اویس مختار

پاکستان کا اصل چہرہ

Image link
آؤ تمہیں بتاؤں پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں، آؤ بتاؤں کہ اس بم دھماکے اور ڈرون پٹاخے کی سرزمین میں اور بھی بہت کچھ ہے جسے تم بھی جانتے ہو، میں بھی جانتا ہوں لیکن ان خوبیوں سے نہ جانے کیوں انجان اور خامیوں پر شور مچاتے۔۔۔ کیوں آخر۔۔۔
آؤ کہ تمہیں بتاؤں، یہی وہ سرزمین ہے جو اسلامی ایٹم بم کی وجہ سے منفرد ہے. یہی زمین آفریدی کے چھکوں کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے. اس زمین نے اسوکائش چیمپئن جان شیر خان کو جنم دیا تھا. یہ ہم ہی ہیں کہ جب بھی دنیا کے کسی کونے میں کسی مسلمان کو کچھ گزند پپنچی تو سب سے پہلے آواز بلند کرتے ہیں. یہ ہم ہی ہیں کہ اس_سے_کیا_ہوگا کی مایوس آوازوں پر کان نہیں دھرتے بلکہ ہر مصیبت کے موقع پر خود آگے بڑھ کر مدد کرتے اور کام کرتے ہیں. ہم وہی ہیں جن کے بارے میں کئی دفعہ پیشین گوئیاں اور بقا کی ڈیڈلائن کے اعلانات ہوئے پھر بھی قائم و دائم ہیں. یہی وہ سرزمین ہے جس سے میرے حبیب کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے تھے. یہی وہ زمین ہے کہ جس نے دنیائے علم و عمل میں بڑے بڑے ناموں کو اور بڑا کیا، لیاقت علی خان، اقبال، جناح کی سرزمین یہ مولانا مودودی، ڈاکٹر اسرار اور عبدالرشید غازی کی سرزمین. یہ دنیا کی سب سے زیادہ پھیلنے والی مڈل کلاس، یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوان رکھنے والی قوم، یہ دنیا میں سب سے زیادہ بیرون ملک افراد رکھنے والی قوم لیکن دل سب کے ایک ہی آواز پر دھڑکتے ہیں.
یہ شدت پسندی (کسی بھی طرح کی) کو مسترد کردینے والی قوم، یہ اپنے ظالم حکمرانوں کیخلاف بہادرانہ تحریکیں چلانے والی قوم، یہ جمہوریت اور اسلام پسند، یہ اپنی پیدائش سے اب تک چار آمریتوں کو بزور قوت ہٹا کر برباد کردینے والی قوم۔
یہ وہ قوم کہ بیرونی کوششوں نے لاکھ اپنی سی کوشش کرلی لیکن آج بھی جب نعرہ لگتا ہے پاکستان کا مطلب کیا تو جواب ایک ہی آتا ہے۔۔

لا الہ الا اللہ

Tuesday, August 5, 2014

(قاتل طیارے) گیم آف ڈرونز! - دوسرا حصہ

image frm here
مئی 2013 میں پشاور ہائی کورٹ کے ایک جج نے فیصلہ سنایا کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں اور حکومت کو ہر ممکن اقدام کرکے انہیں روکنا چاہیے چاہے طاقت کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔اس ہی دوران ایک بین الاقوامی ادارے نے رپورٹ شائع کی کہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے یہ طریقہ کسی طور بھی مناسب نہیں کیوں کہ اس سے بجائے مسائل حل ہونے کے اور گھمبیر ہونگے۔اس کے کچھ ہی دن بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے دھمکیوں کے بعد حملے شروع ہوگئے۔مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیش آئی جب نواز شریف نئے نئے الیکٹ ہو کر آتے ہیں اور آتے ہی ڈرون روکنے کا حکم جاری کرتے ہیں جس کے کچھ دن بعد ہی ایک اور ڈرون حملہ ہو جاتا ہے! غرض اس ہی طرح کے بیانات جاری ہوتے رہے اور ڈرون ان بیانات کو تمسخر اڑاتے رہے!
اسٹینفرڈ یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق ڈرون حملوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، 2012 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق صرف سترہ فیصد افراد نے ڈرون کی حمایت کی تھی۔ جب کہ ایک اور ریسرچ کے مطابق ستانوے (97) فی صد افراد ڈرون کو ایک غلط پالیسی سمجھتے ہیں! پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی جانب سے (خصوصا جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام)گاہے بگاہے ڈرون کے خلاف غم و غصہ کا اظہاری کیا جاتا رہا، کبھی مظاہروں کی صورت میں تو کبھی مختلف بیان دئے جاتے رہے۔ اکتوبر 2012 میں پاکستان کی تحریک انصاف کی جانب سے بھی ایک امن مارچ کیا گیا، جس میں اس بات کا عزم کیا گیا کہ دنیا کو ان ڈرون کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا جائے گا، پاکستانی طالبان کی جانب سے اس امن مارچ کا خیر مقدم کیا گیا تھا اور اس ریلی کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی پیش کش بھی کی گئی تھی! عوامی جذبات کے اظہار کے لئے جماعت اسلامی سب سے آگے رہی اور اس مسئلہ کو پوری دنیا میں روشناس کرایا جس کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈرون حملے صرف پاکستان میں نہیں دیا کے اور ممالک میں بھی کئے جاتے رہے۔
ابن سید


دنیا کے اور ممالک میں کہاں کہاں ڈرون کا استعمال اور کن لوگوں پر استعمال کیا گیا، اس بارے میں انشاء اللہ اس سلسلے کی اگلی کڑی میں بات کریں گے

Wednesday, July 16, 2014

(قاتل طیارے) گیم آف ڈرونز!

Image from here
٢٠٠٤ سے لے کر ٢٠١٣ تک امریکی رپورٹ کے مطابق ڈرون حملوں کی تعداد ٣٦٩ ہے جبکہ اس میں ان کے مطابق ٢٨٥١ افراد کی ہلاکت ہوئی جس میں سے ٢٢٩١ شدت پسند، ٢٨٦ سویلین اور ٢٧٤ وہ افراد ہیں جن کے بارے میں معلومات ہی نہیں ، یعنی حملے ہوگئے لوگ مرگئے اور مارنے کے بعد یہ دیکھنا ہی گوارا نہیں کیا گیا کہ مرنے والے آخر تھے کون. جمائما خان کی ڈرون حملوں کے حوالے سے ڈاکومنٹری میں بتایا گیا کہ ایک جگہ حملہ ہوا اور کہا گیا کہ "اہم طالبان کمانڈر" ہلاک، جبکہ دراصل اس دن ایک بچے کی ہلاکت ہوئی جو کہ گاڑی میں اپنے دوستوں کو فٹبال کھیلنے کیلئے جمع کررہا تھا، اس ہی ڈاکومنٹری میں ایک ڈرون آپریٹ کرنے والا فوجی بتا رہا ہے کہ ڈرون کے کیمرے میں ہمیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے کس پر حملہ کیا یہ سب انٹیلیجنس اطلاعات پر ہوتا ہے اور سب جانتے ہیں یہ اطلاعات بعد میں غلط بھی ثابت ہوتی ہیں، یعنی صرف شک کی بنیاد پر افراد کی جان لے لی گئی اور پھر پوچھا تک نہ گیا کہ مرنے والا تھا کون... کیا صرف کولیٹرل ڈیمیج کہہ کر جان چھڑا لی جائے گی؟
یہ اعداد و شمار تو صرف ہلاکتوں کے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے. اور سب سے بڑی بات کے یہ اعداد امریکی ذرائع کے مطابق ہیں لہذا ان پر پوری طرح اعتبار نہیں کیا جاسکتا.
بیورو آف انویسٹیگیٹیو جرنلزم کے اعداد مزید بھیانک ہیں ، حملوں کی تعداد ٣٨١، ہلاکتیں ٣٦٤٦، سویلین ہلاکتیں ٩٥١، بچوں کی ہلاکتیں ٢٠٠، زخمیوں کی تعداد ١٥٥٧. (تعداد زیادہ سے زیادہ ، جنوری ٢٠١٤)
ملک بھر میں عوام نے ان حملوں کے خلاف احتجاج کیا جس سے مجبور ہوکر بالآخر حکومت پاکستان نے بھی امریکی حکومت سے احتجاج کیا لیکن یہ سب ایک ڈھکوسلہ تھا کیوں کہ ٢٠٠٦ میں فاکس نیوز نے سیٹلائٹ تصاویر شائع کیں جن میں تین ڈرون طیاروں کو شمسی ایئربیس پر کھڑا دکھایا گیا تھا. واشنگٹن پوسٹ نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک خفیہ ڈیل کے نتیجہ میں یہ سب کچھ ہورہا ہے جس کی تردید اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی تھی.

ابن سید

(جاری ہے، ساری دنیا سے اور بالخصوص پاکستان کے قبائلی علاقوں سے عوام کا رد عمل، اگلی قسط میں)


"امن" دونوں اطراف سے

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم دو پہاڑوں کے درمیان پِس رہے ہیں. اس میں سے ایک طرف طالبان ہیں تو دوسری جانب ملکی اسٹیبلشمنٹ. ظلم؟ ظلم تو دونوں جانب سے ہی ہے، میانہ روی، رواداری دونوں جانب سے ہی غائب ہے. ایک جانب سے خوارج، خارجی، انڈین ایجنٹ اور تکفیری ہونے کے الزام لگتے ہیں تو دوسری جانب سے مرتد، ناپاک اور امریکی پٹھو ہونے کا فتوی! جبکہ دونوں ہی مسلمانی کا دعوی کرتے ہیں اور دوسرے کو کافر قرار دینے پر بضد ہیں. ایک جانب سے خودکش حملے ہوتے ہیں تو بیگناہ مارے جائیں، دوسری جانب سے جیٹ طیّاروں سے بمباری ہو تو بیگناہ اُدھر بھی مارے جائیں. اس کولیٹرل ڈیمیج کی فکر دونوں اطراف سے کسی کو بھی نہیں، ہاں اپنی حمایت اور طاقت میں اضافہ کیلئے اس ڈیمیج کی اصطلاح کو استعمال کرنا دونوں جانب کا پسندیدہ مشغلہ ہے. اس سب صورتحال میں جماعت اسلامی کا موقف اب تک سب سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ: "نہ خودکش حملوں سے شریعت کا نفاذ ہوسکتا ہے اور نہ ہی جیٹ طیاروں کی بمباری سے آئین کا نفاذ۔
آگ بھڑک جائے تو پھر سب کے مکان جلتے ہیں پھر آگ نہیں دیکھتی کہ کدھر کی ہَوا ہے. دونوں اطراف کے متشددین اپنی اپنی صفوں میں واپس جائیں اور ملک کی تقدیر کا فیصلہ اس ملک کے باشعور عوام کو کرنے دیں. تمام جمہوری سیاسی جماعتیں بھی ملک میں جمہوری و مشاورتی کلچر کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کریں نہ کے آمریت کیلئے راہ ہموار کرنے کی سازشوں کا حصہ بنیں. اس ملک میں امن کیلئے کام کریں ورنہ بعید نہیں کے اللہ کی "ضربِ کاری" پڑے تو گیہوں کیساتھ گھن بھی پِس جائیں۔
ابنِ سیّد

Monday, June 23, 2014

The Truth bit bitter - By Abdul Muqeet Khan

In 1947 when Pakistan came into being by the blessing of Almighty Allah and the efforts of our prominent civil leader and hero Quaid-E-Azam M.A.Jinnah . He became the first Governor General of Pakistan. He worked hard for the prosperity of the nation and the country. After one year he passed away and Pakistan got orphan, then the Liaquat Ali Khan who was the first prime minister of Pakistan worked hard for the development of Pakistan. He was very affluent and financially sound; he deserted his possessions and mansion for the sake of Pakistan, but the woe for Pakistan that he acquired martyrdom.

From this point Pakistan’s decline starts.

In 1958, the government in reaction to the riots ultimately asked the military for assist and in response Corp Commander of Lahore General Muhammad Azam Khan decreed the first martial law in parts of the country.

This was a turning point in the country's history and even though the riots were eventually oppressed by military force but the seeds of impatience were sown in the Pakistani society. Ayoub Khan took the rein of the country and ruled over it for 10 years.

That was the first time when army forayed into the government and proved that army not subordinate of any political force. Time passed and military established its root into the political system of Pakistan. Now if talk about Bhutto who became 9th prime minister of Pakistan. Bhutto was basically a feudal lord. He couldn’t be a good elected prime minister although he was a good rhetoric and had speech in the mammoth gathering. His frame of mind never met with the common people and what nowadays is being done his grandson who never be a Bhutto but due to lack of strict implementation of law he turned out Bhutto and now ruling Pakistan People Party. I sometimes astound that a guy barely would be of 25 years could be a leader of the Pakistan’s political party. How the other leaders of PPP acknowledge him. Is not it really absurd. It’s a frequent saying that Pakistan disintegrates in the Bhutto’s regime but was there only Bhutto who disintegrated? Actually foreign policy was devising by the “others”. Then Zia intervene and topple Bhutto’s regime .One thing I couldn’t comprehend that why “patriotic” General of Pakistan couldn’t tumble Bhutto’s regime when Pakistan was disintegrated. Zia era was good for religious school of thought. In all this regimes Pakistan not only disintegrated but its economy endlessly declined. Then again after couple of years Benazir Bhutto came into power. She would also belong to the feudal class as she was a daughter of a feudal lord Zulfiqar Ali Bhutto.

Mian Nawaz Sharif epoch comes in and he got power. He is also a businessman. His approach always towards profit, not the profit of Pakistan but the profit of his own. He has his steel mill not in Pakistan but in Middle East. How could he sincere with Pakistan when he even do not crave to establish his mills in Pakistan and never longs to draw back buck in Pakistan. They people don’t even think for Pakistani people and why do they think? They don’t have time to ponder on the condition of people. Again misfortune came for the country. A man who was appointed by Nawaz Sharif now wanted to collapse his government and he succeeded. Totally timid General ,Pakistan ever seen such cowards who bow himself down before America and handed over our basis to America that was the worst time in the history of Pakistan. Contingents of the other countries invaded in Pakistan and developed their network, worse time for Pakistan when suicide bombers stared to go off him selves. Commando ran away then came back and now willing to go abroad but a common and a poor Pakistani suffering worse condition of country. Now again Nawaz Sharif dominating the country for the 3rd time. Same Nawaz Sharif same businessman. Some time I feel that is it the same nation who elected Nawaz Sharif for the 3rd time or it’s their revolt offspring who despite of forbidding cast their vote for Nawaz Sharif. Two to three families are running the whole country one ruling while other waiting for his turn. In Pakistan neither democracy could give respite to the poor nor autocracy worked. Now military is far away from treasury benches since the couple of elected governments era. It seems good gesture from the military side but despite of all that, elected government failed to deliver. Pakistani youth needs revolution not from foreign country but from Pakistan .Nation totally fed up with all these again and again dominance. Youth needs employment, man needs security, women need shelter, old needs benefits and Pakistan needs pious, piety and sincere leader.

From,

Abdul Muqeet Khan!!!

This is a guest blog by Mr. Abdul Muqeet Khan. This is his opinion, for any clarification you can directly contact him or comment below.

Thursday, June 19, 2014

آئی ایم شریف بٹ ...


تصویر یہاں سے لی گئی

"شریف تو وہ ہے جسے موقع نہیں ملا".. ارے میں اُس شریف کی بات نہیں کررہا، نہ ہی اِس شریف کی بات کررہا ہوں، ان دونوں کو تو موقع مل چکا ہے، لہذا شرفاء کی کیٹیگری سے انکو خارج کرنے کے بعد سن صرف انکا نام شریفوں والا رہ گیا ہے. ہاں تو میں شرافت والے شریف کی بات کررہا ہو، شریف وہ ہے جسے موقع نہیں ملا. ہم میں سے اکثر اس ہی قسم کے شریف ہیں، لیکن گُلو بٹ شریف نہیں تھا، کیوں کہ اس کو موقع مل گیا اور اس نے وہ موقع ضائع نہیں کیا.
آپکو کیا لگتا ہے یہ جو گُلّو کی تصاویر سوشل میڈیا پر آتے ہیں مذمتیں کرنے شروع ہوگئے اور مذمتیں بگھار بگھار کر فیس بک کا سرور صبح سے شام تک کیلئے ڈاؤن کردیا، کیا یہ سب گُلّو سے کم ہیں. یہ جو بعض مواقع پر بات کرنے کا موقع ملتے ہی مارو اور مرجاؤ والی باتیں شروع کردیتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ فلاں کو مرجانا چاہیے، کبھی کہتے ہیں سارے سیاست دانوں کو ماردو وغیرہ وغیرہ، یہ باتوں میں صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کرپاتے پھر تو بس انکے ہاتھ میں ڈنڈا آنے کی اور موقع ملنے کی دیر ہے، گُلّو کو بھول جائیں گے آپ اور اگر میری بات کا یقین نہیں تو اس کی عملی مثال آپ خود دیکھ سکتے ہیں جب پڑھے لکھے باشعور وکلاء نے آج پیشی پر لاتیں مار کر گُلّو کو ادھ موا کیا ... ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ، "شریف تو وہ ہے جسے موقع نہیں ملا"...

ابنِ سیّد

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments