اندھیرا ہے، عشاء کی نماز ہو رہی ہے، امام مسجد کی تلاوت کی آواز ابھرتی ہے، اور اس تلاوت کے دوران گونجنے والی فائرنگ کی آواز، کبھی بھاری اسلحہ اور کبھی ہلکہ اسلحہ، اطراف سے شور کی آواز، خوشی اور حیرت کا ملا جلا سا شور، جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جائے، امام مسجد سجدہ ریز ہے اور یہ منظر جاری ہے.
یہ پڑھنے کے بعد شاید کچھ لوگ سمجھیں یہ کسی جہاد کے میدان کی منظر کشی ہے لیکن نہیں، یہ منظرکشی اس وقت کی ہے جب پاکستان کرکٹ کی بازی میں اپنے روایتی حریف بھارت کو شکست دے دیتا ہے.
شاید نہیں بلکہ یقیناً بہت سے قارئین آگے کے الفاظ پڑھ کر منہ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اِن نقادوں کو بھی چین نہیں قوم کو دو پل خوشی کے میسر آجائیں تو انہیں اچھا نہیں لگتا. لیکن ایسا نہیں کہ میں خوش نہیں ہوں، ہاں میں بھی خوش ہوں کہ میرا ملک جیت گیا، میں خوش ہوں کہ پاکستان نے ایک روایتی حریف کو شکست دی اور ہر بار کی طرح ایک اور جیت اپنے نام کر لی. لیکن میں کیا کروں میں ایک غریب قوم کا غریب شخص ہوں، اور بحیثیت انسان محروموں کے مزار پر دھماچوکڑی مچانا میرے نزدیک صحیح نہیں.
چاروں طرف جیت کا جشن جاری ہے، ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی آواز گونج رہی ہے. میں مسجد سے باہر نکلتا ہوں مگر ایک آواز میرے قدم جکڑے دیتی ہے یہ ایک باپ کی فریاد ہے ایک خوش لباس شخص ہے جو کچھ دیر قبل میرے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا مگر اب فریاد کر رہا ہے کہ کوئی مدد کرے کہ اس کے بچے کھانا کھا سکیں. یہ کہتا ہے کہ کوئی تو اللہ کا بندہ ہو جو میری غربت کا خیال کرے میرے گھر کی حالت دیکھ لے.
میں مسجد سے نکل جاتا ہوں چند قدم چلتا ہوں کہ راستہ میں ایک پکار پھر میرا راستہ روکے دیتی ہے یہ ایک بزرگ ہیں باریش اور سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں لاٹھی تھامے میرا راستہ روک کر راشن دلانے کا سوال کرتے ہیں. میں وقت کی کمی کا بہانہ کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں میں انتظار کر لوں گا!
میں آگے بڑھ جاتا ہوں، دل میں احساس زور پکڑتا ہے کہ دو سوال رَد کر چکا ہوں، کیا جواب دوں گا اللہ کو. فائرنگ کی آوازیں مسلسل آرہی ہیں چند کلو میٹر دور سے آتش بازی دکھائی دے رہی ہے. کئی ہزار روپے فضا میں رنگوں کی صورت بلند ہوتے ہیں دھماکے کی آواز کے ساتھ اطراف کے ماحول کو رنگ میں نچھاور کرجاتے ہیں. گلیوں میں نوجوان خوش ہیں، چورنگی پر آتش بازی اور بھنگڑے ڈَل رہے ہیں. ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جیت کا جشن زور پکڑ رہا ہے.
میں گھر کا سودا سلف لیتا ہوں، گھر کی جانب چل پڑتا ہوں. بزرگ کی آواز پھر میرا راستہ روکتی ہے. میں نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں. کِن انکھیوں سے دیکھتا، اُن سے بچتا بچاتا گھر کی راہ لیتا ہوں جہاں ٹی وی پر ہوائی فائرنگ اور اس کے زخمیوں کی خبر چل رہی ہے. جیت کی خبر چل رہی ہے. نوجوانوں کے بھنگڑوں کی خبریں چل رہی ہیں. ہاں میں بھی خوش ہوں، میرا وطن ایک بار پھر جیت گیا، خوشیاں مناؤ! جیت کا جشن بڑھتا جاتا ہے، بزرگ کی آواز، فائرنگ کی آوازیں، بھنگڑوں کی آوازیں، ڈھولک کی تھاپ، سب گُڈمڈ ہوتے جاتے ہیں.
شاید نہیں بلکہ یقیناً بہت سے قارئین آگے کے الفاظ پڑھ کر منہ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اِن نقادوں کو بھی چین نہیں قوم کو دو پل خوشی کے میسر آجائیں تو انہیں اچھا نہیں لگتا. لیکن ایسا نہیں کہ میں خوش نہیں ہوں، ہاں میں بھی خوش ہوں کہ میرا ملک جیت گیا، میں خوش ہوں کہ پاکستان نے ایک روایتی حریف کو شکست دی اور ہر بار کی طرح ایک اور جیت اپنے نام کر لی. لیکن میں کیا کروں میں ایک غریب قوم کا غریب شخص ہوں، اور بحیثیت انسان محروموں کے مزار پر دھماچوکڑی مچانا میرے نزدیک صحیح نہیں.
چاروں طرف جیت کا جشن جاری ہے، ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی آواز گونج رہی ہے. میں مسجد سے باہر نکلتا ہوں مگر ایک آواز میرے قدم جکڑے دیتی ہے یہ ایک باپ کی فریاد ہے ایک خوش لباس شخص ہے جو کچھ دیر قبل میرے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا مگر اب فریاد کر رہا ہے کہ کوئی مدد کرے کہ اس کے بچے کھانا کھا سکیں. یہ کہتا ہے کہ کوئی تو اللہ کا بندہ ہو جو میری غربت کا خیال کرے میرے گھر کی حالت دیکھ لے.
میں مسجد سے نکل جاتا ہوں چند قدم چلتا ہوں کہ راستہ میں ایک پکار پھر میرا راستہ روکے دیتی ہے یہ ایک بزرگ ہیں باریش اور سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں لاٹھی تھامے میرا راستہ روک کر راشن دلانے کا سوال کرتے ہیں. میں وقت کی کمی کا بہانہ کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں میں انتظار کر لوں گا!
میں آگے بڑھ جاتا ہوں، دل میں احساس زور پکڑتا ہے کہ دو سوال رَد کر چکا ہوں، کیا جواب دوں گا اللہ کو. فائرنگ کی آوازیں مسلسل آرہی ہیں چند کلو میٹر دور سے آتش بازی دکھائی دے رہی ہے. کئی ہزار روپے فضا میں رنگوں کی صورت بلند ہوتے ہیں دھماکے کی آواز کے ساتھ اطراف کے ماحول کو رنگ میں نچھاور کرجاتے ہیں. گلیوں میں نوجوان خوش ہیں، چورنگی پر آتش بازی اور بھنگڑے ڈَل رہے ہیں. ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جیت کا جشن زور پکڑ رہا ہے.
میں گھر کا سودا سلف لیتا ہوں، گھر کی جانب چل پڑتا ہوں. بزرگ کی آواز پھر میرا راستہ روکتی ہے. میں نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں. کِن انکھیوں سے دیکھتا، اُن سے بچتا بچاتا گھر کی راہ لیتا ہوں جہاں ٹی وی پر ہوائی فائرنگ اور اس کے زخمیوں کی خبر چل رہی ہے. جیت کی خبر چل رہی ہے. نوجوانوں کے بھنگڑوں کی خبریں چل رہی ہیں. ہاں میں بھی خوش ہوں، میرا وطن ایک بار پھر جیت گیا، خوشیاں مناؤ! جیت کا جشن بڑھتا جاتا ہے، بزرگ کی آواز، فائرنگ کی آوازیں، بھنگڑوں کی آوازیں، ڈھولک کی تھاپ، سب گُڈمڈ ہوتے جاتے ہیں.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment