Saturday, March 8, 2014

تھر، بھوک پیاس افلاس، ورلڈ ریکارڈز اور سندھ فیسٹیول

ایک ماں اپنے دو بچوں کو مار دیتی ہے، شوہر گھر میں پیسے نہیں دیتا تھا اور بچے بھوک سے تڑپتے رہے، ماں کا بیان ہے کہ وہ اس تکلیف کو دیکھ نہ سکی اور اپنے بچوں کو بھوک سمیت تمام غموں سے نجات دلا دی. مجھے ذاتی طور سے اس طرز عمل سے بے حد اختلاف ہے کیوں کہ مایوسی کفر ہے. اسلام نے اسی وجہ سے مایوسی کو کفر کا درجہ دیا ہے، اللہ سے ہمیشہ اچھی امید رکھنی چاہیے.
ہم سب نے اس ہی دن سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اور کرنا بھی چاہیے. حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ "دجلہ کے کنارے کوئی کتّا بھی بھوکا مر گیا تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے پوچھ ہوگی". لیکن دوسری جانب ہم یہ واقعہ دیکھتے ہیں کہ سندھ فیسٹیول ہوتا رہا، اس پراجیکٹ پر جتنا خرچہ ہوا وہ بھی ظاہر ہے، اس ناچتے تھرکتے فیسٹیول میں کسی کی نظر اس جانب نہیں گئی کہ سو سے زائد بچے تھر میں بھوک سے بلک بلک کر موت کی آغوش میں جا سوئے.
حکومت اپنے فرض سے غافل رہی تو لوگوں کا فرض کیا صرف یہی رہ گیا کہ وہ حکومت پر تنقید کریں اور چپ ہوجائیں، مجرم صرف حکومت نہیں اس گھر کے پڑوسی بھی ہیں جس گھر میں دو بچے مار دیے گئے کیا اس گھر کے آس پاس جو لوگ بستے تھے کیا وہ پتھر کے بنے ہوئے احساس سے عاری بُت تھے. اتنا پتھر دل تو وہ پتھر بھی نہیں ہوتا اپنے سینے سے کونپل پھوٹنے دے کر زندگی کو جنم دیتا ہے. کیا یہ انسان اس سے بھی زیادہ گئے گزرے تھے. حدیث میں ہے "تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا". کیا جواب ہمارے پاس ہے کہ کیوں وہ معصوم قتل کردیے گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی!
حکمرانوں کو بیشک تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ انہیں منتخب کر کے مسندِ اقتدار پر فائز کرنے والے ہم ہی لوگ ہیں.
اب بھی اس غلطی کو سدھارا جا سکتا ہے، پاکستان آرمی، الخدمت، جماعت الدعوہ اور دوسری فلاحی تنظیموں نے تھر کے صحراؤں میں غذا کی قلّت پوری کرنے کا کام شروع کردیا ہے. زیادہ سے زیادہ عطیات کے ذریعہ ہم اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں. دوسری بات اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا ہر ممکن خیال رکھیں. اللہ ہمیں اس کی ہمت و توفیق دے.
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments