Wednesday, April 2, 2014

پانی سے چلنے والی گاڑی

آج سے کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعوی کیا، بعض افراد کے نزدیک انہوں نے چلا کر بھی دکھا دی تھی. حامد میر کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں اس سائنس دان کو بلایا گیا اور اس ہی پروگرام میں پاکستان کے دو ذہین دماغوں کو کانفرنس پر لیا گیا. ان میں سے ایک تھے ڈاکٹر عطا الرحمن جبکہ دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے، دونوں ہی ہمارے لئے قابل احترام اور ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں. اب اصل واقعہ ملاحضہ فرمائیں جب ڈاکٹر عطاء الرحمن سے رائے لی گئی تو ان کا تجزیہ بہت بے لاگ اور اگر یہ کہا جائے کہ تکلف کو بالائے طاق رکھ کر کیا تو زیادہ بہتر ہوگا انہوں نے کہا کہ (الفاظ آگے پیچھے ہو سکتے ہیں مفہوم کم و بیش یہی ہے، راقم) "دنیا بھر میں دیکھ لیں اور بیشک گوگل کرلیں آپکو نظر آئے گا کہ اس طرح کے دعوے کرنے والوں کو پانچ دس پندرہ سال کی سزا ہونا معمول کی بات ہے جب ایک چیز ہو ہی نہیں سکتی تو انہوں نے کیسے کرلی، یہ سراسر دھوکے بازی ہے" . حامد میر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے رائے جاننا چاہی اور ٹکرا لگاتے ہوئے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا یہ صحیح ہے کہ یہ سب دھوکہ ہے، جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر نے بہت پیاری بات کی، کہنے لگے "کوئی دھوکے بازی نہیں، اگر ایک شخص نے کوئی سائنسی دعوی کیا ہے تو اس کو رد کرنے والے شخص کو اس کی مخالفت میں کوئی تھیوری لانی چاہیے ناں کہ دھوکہ بازی کے الزام لگائے، میں جب ایٹم بم بنانے کے پراجیکٹ پر کام کر رہا تھا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ایک صاحب دعوی کرتے ہیں کہ مکھن بنانے والی مشین سے بم بنائیں گے،بہرحال اللہ نے اس مشن کو مکمل کیا اور کامیاب کیا".
دونوں کے الفاظ کو ایک بار پھر سے پڑھیں، آپ سمجھ جائیں گے کے پاکستان ریسرچ کے میدان میں کیوں پیچھے ہے. شاید ہر دوسرے میدان کی طرح یہاں بھی بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کیلئے تیار بیٹھی ہیں. ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس سائنس دان کی تائید نہیں کی بلکہ نہایت مناسب الفاظ میں اختلاف کرنے کا طریقہ بتلا دیا جبکہ دوسری جانب عطاءالرحمن صاحب نے اس ہی شخص کو دھوکے باز کے لقب سے نوازا. فرق رویہ کا ہے. جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سائنس کا میدان ایک کھلا سمندر ہے یہاں ہر دوسرے دن نئی تھیوری سامنے آتی ہے اور پرانی تھیوری رد ہوجاتی ہے لیکن ہماری کتابوں میں رد شدہ تھیوریوں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ ان تھیوریز کے بانیوں کے کام کو بھی اچھے الفاظ میں سراہا گیا ہے.
زبان کا زخم تلوار کے زخم سے زیادہ کارگر ہوتا ہے! بعض دفعہ آپکے منہ سے نکلا ہمت افزا ایک لفظ کسی کی زندگی بنا دیتا ہے، اور بعض دفعہ یہی ایک لفظ بنتی بگاڑ دیتا ہے.
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments