Sunday, April 13, 2014

کتّا

کتّا
(براہ کرم! اپنی ذمہداری پر پڑھیں)

کتّے کا بچہ بھی کتّا ہی ہوتا ہے. عام الفاظ میں وہ کتّا ہی ہوا، اسے کتّا ہی لکھا، بولا اور پچکارا جائے. کتّے کا بچہ یا کتّے کا پِلّا کہہ کر الفاظ کا زیاں ہی ہوگا. بعض افراد ان الفاظ کو بیہودہ سمجھتے ہوئے ان سے کنّی کترا کر اِسے چھوٹا کتا، ڈوگی یا پپّی کہہ دیتے ہیں لیکن کم و بیش یہی صورتحال انہی الفاظ و القاب کے حوالے سے ہے. کتّا چھوٹا ہو ہا بڑا، اسے ڈوگی کہو یا پپّی کتّا تو کتّا ہی ہوتا ہے. کتّے کی کئی سو اقسام ہیں لیکن ان سب میں مشترک خصوصیت انکا کتّا ہونا ہی ہے. آواز کم ہو یا زیادہ سب کے سب بھونکتے ہی ہیں. مثل مشہور ہے کہ "جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں"، لیکن کوئی پوچھے کیا گارنٹی ہے کہ بھونکنے کیلئے کھلا ہوا منہ بند ہو تو اس میں آپکی ٹانگ نہ ہو، اب اس صورتحال میں مثل کہنے والے کو چودہ ٹیکے نہیں لگیں گے. یقیناً کتّے جیسی خصوصیات سے بچنے کیلئے چودہ ٹیکے آپکو لگوانے پڑیں گے اس امید پر پہ شاید اس سے کتّے پن میں کمی واقع ہوجائے، ویسے گارنٹی اُسکی بھی نہیں! کہتے ہیں کتا وفادار ہوتا ہے، اس لئے بعض وفادار افراد کو بھی لوگ کتّے کے مثل کہتے ہیں (مثلاً انگریز کا کتّا مطلب انگریزوں کا وفادار) . انگریز بر صغیر آیا تو اس نے قانون بنایا کہ اچھے ہوٹلوں میں انڈین اور کتّے ممنوع ہیں، لیکن بعض لوکل لوگ یہ سہہ نہ سکے اور ہاٹ ڈاگ کی محبت میں بن گئے انگریزوں کے غلام، انگریز چلا گیا لیکن اپنے پیچھے اپنے وفادار (کتّے) چھوڑ گیا، آج کل ان وفاداروں کا حال وہی ہے وہ کہتے ہیں ناں "دھوبی کا کتا، نہ گھر کا نہ گھاٹ کا" ... صحیح کہتے ہیں!

ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments