اس بات کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جنگ اخبار کے اتوار میگزین میں ایدھی صاحب کا انٹرویو شائع ہوا، انٹرویو کرنے والے نے غلط کام یہ کیا کہ انکے فلاحی کاموں کے متعلق سوالات کے علاوہ ان سے مذہبی سوالات بھی کر بیٹھے، ایک سوال جہادیوں کے متعلق کرلیا تو جواب ملا کے جہادی شارٹ کٹ میں جنَّت میں جانا چاہتے ہیں چند اور جواب بھی اس ہی طرح کے دۓ، اب ہر طرف ہاہاکار مچ گئی حالاں کہ قصور ایدھی صاحب کا نہیں سوال پوچھنے والے کا ہے. اب اگر مجھ جیسے عام آفس ورکر سے کیمیات کا سوال پوچھو اور میں صحیح جواب نہ دوں تو قصور کس کا؟ اگر ایک شخص دینی علم میں اتنی معلومات نہیں رکھتا تو کس نے کہا کہ اس کی ذاتی رائے کریدو، معلوم کرو اور اس کو فتوی کا درجہ دے کر اخبار میں شائع کردو!
لیکن یہ صرف ایک مثال نہیں اس ملک میں ان گنت مثالیں ایسی ملیں گی. یہاں آپکو فوجی امور سے نابلد خبطی افراد دفاعی تجزیہ نگار بنے بیٹھے دکھیں گے. تو دوسری جانب ایک معروف ایکٹریس و کامیڈین، موسیقی کے پروگرام میں جج بنی بیٹھی دکھائی دیں گی. اداکارہ میرا استغفار نامی پروگرام کرتی دکھیں گی تو دوسری جانب اچھل کود مچاتا مداری عالم آن لائن کی میزبانی کرتا دکھائی دے گا. قصور ان کا نہیں بلکہ اس کا ہے جو ان کو اس مقام پر بٹھا رہا ہے.
یہ سب بتانے کا مقصد :- اسلامی امور کے مطابق لوگوں تک معلومات علماء، مفتیان اور دینی علم رکھنے والے افراد ہی پہنچائیں گے! میڈیا چینل مالکان اسلامی نظریاتی کونسل کو اپنے گھر کی کھیتی سمجھ کر اس کے کام پر کیچڑ نہ اچھالیں! جس کا کام ہے اس ہی کو کرنے دیں ورنہ ان میڈیا مالکان اور دین بیزار افراد کے ہاتھ میں اقتدار آجائے تو بعید نہیں کہ کل کو ماروی سرمد کو اس کونسل کی ذمہ داری سونپ دیں.
دیکھتا جا... شرماتا جا
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment