یہ کہانی ہے ایک گھر کی، ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک گھر ہوا کرتا تھا، ہر گھر کی طرح اس کے در و دیوار بھی تھے، بہت سے رہنے والے بھی تھے، سامان بھی تھا اور نہایت قیمتی اشیاء بھی تھیں. اس ہی گھر کی نگھبانی کے پیشِ نظر اس گھر کی مکینوں نے ایک چوکیدار کو نوکری پر رکھنے کا فیصلہ کیا، کافی سوچ و بچار کے بعد اور متعدد انٹرویو کرنے کے بعد بالآخر ایک چوکیدار کا انتخاب کر ہی لیا گیا. وہ ایک مضبوط جسم کا مالک ایک زبردست شخصیت کا انسان تھا، مضبوط اعصاب کا مالک. کچھ ہی دن میں تمام گھر والے اسے پسند کرنے لگے اور اس کی خوبیوں کے معترف ہوگئے اس کی موجودگی میں حفاظت کا احساس ہونے لگا.
اس علاقہ میں کئی عرصہ سے چوری ڈکیتی عام ہوچکی تھی، علاقے کے بدمعاشوں کا ایک گروہ جب جس کے گھر ڈاکہ مارنا چاہتا کامیاب ہوتا اور کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ پاتا. عرصہ سے اس کی نظر اس گھر پر بھی تھی جبھی تو حفظ ما تقدم کے طور پر گھر والوں نے چوکیدار رکھ لیا تھا .
ایک رات وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ڈکیت اس گھر پر آگئے. لیکن انکا سامنا اس بہادر چوکیدار سے ہوا. کئی گھنٹے تک مقابلہ چلتا رہا بالآخر گھر کا محافظ جیت گیا. گھر بھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی اور چوکیدار اب اور بھی گھر والوں کا لاڈلا بن گیا تھا. فوراً ہی گھر کے "فالتو خرچے" بند کرکے چوکیدار کی تنخواہ بڑھا دی گئی...
وقت گزرتا گیا اور چوکیدار کی تنخواہ بڑھتی گئی، گھر کے لوگوں کے جیب خرچ کاٹ کر جب یہ تنخواہ بڑھائی جاتی تو کچھ گھر والوں کو برا تو لگتا لیکن وہ خاموش رہتے ... کچھ عرصہ بعد ایسا محسوس ہونے لگا جیسے یہ گھر اور چوکیدار لازم و ملزوم ہونے لگے. اس بات کا احساس شاید چوکیدار صاحب کو بھی ہوچکا تھا لہذا وہ بھی اب کسی کو خاطر میں نہ لاتے.
اس ہی گھمنڈ میں ایک دن وہ پڑوسی کے گھر والوں پر بھی رعب جھاڑنے لگے لیکن پڑوسی برداشت نہ کر سکے اور دونوں میں جھگڑا ہوگیا. لڑ جھگڑ کر گھر آۓ اور کہنے لگے کے کوئی گھر سے نہ نکلے گھر والوں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے. گھر والے چپ سادھے بیٹھے رہے. کچھ دن اور گزرے اور وہ جناب کئی اور پڑوسیوں سے بھڑ گئے نوبت مارکٹائی تک پہنچی اور اب کی بار آدھے سے زیادہ محلہ جان کو عذاب ہوچکا تھا.
اس رات گھر والوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ صبح اس چوکیدار کو فارغ کردیا جائیگا لیکن اگلے روز چوکیدار صاحب نے کہا کہ پہلی بات میری اس گھر کیلئے خدمات بہت ہیں اور اس کے ساتھ ڈکیتی سے بچاؤ کی کہانی سنائی پھر الٹی میٹم دینے کے انداز میں کہنے لگے کہ اگر میں گیا تو محلے والے آپ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے کیوں کہ میں ان کے ساتھ مسائل پیدا کرچکا ہوں اور وہ اب گھر والوں کو اور مجھے ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں ..
اس دن گھر والے سر جوڑ کر بیٹھے کے کیا جان کو عذاب لگا لیا ہے لیکن انہیں کوئی تدبیر نہیں سمجھ آئی.. اب تو اس مسئلہ کو کے کر گھر والوں میں آپس میں اختلافات پیدا ہوچکے تھے، بھائی بھائی سے لڑ رہا تھا. تمام گھر والے مل کر اُس کو کوس رہے تھے جس نے اس چوکیدار کا انتخاب کیا تھا.
کچھ عرصہ گزرا ہی تھا کہ چوکیدار صاحب کی ہمت اور بھی بڑھ چکی تھی، گھر کے معاملات میں دخل دینا تو جیسے اسکی عادت بن گیا تھا. گھر میں کون آرہا ہے کون جارہا ہے، چلو یہ تو ٹھیک ہے لیکن گھر والے اس سے کیوں مل رہے ہیں اور کس سے ملو اور کس سے نہ ملو، فیصلے صادر ہونے لگے. گھر والے بھی اب اسکے رحم و کرم پر تھے. بارہا گھر کے بڑوں نے اس کو بلا کر سمجھایا کہ تمہارا کام گھر کی حفاظت کرنا ہے ناں کہ گھر والوں کے اندرونی معاملات میں دخل دینا لیکن وہی ڈھاک کے تین پات اسے بھی اپنی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوچکا تھا اور گھر والوں کو بھی اوقات لگ پتا گئی تھی! دن گزرتے گئے یہاں تک کے گھر والوں کے بجٹ کا خطیر حصہ چوکیداری کی تنخواہ کیلئے نکلنے لگا بلکہ اب تو جمع پونجی بھی اس ہی مقصد کیلئے خرچ ہونے لگی، وہ وقت بھی آیا کہ جب گھر قرضوں میں ڈوبتا گیا لیکن اس کے برعکس چوکیدار کی تنخواہ بڑھتی ہی گئی اور تو اور بجاۓ احسان ماننے کے چوکیدار صاحب اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کرتے رہے، اور تو اور گھر والوں کو کمتر اور حقیر سمجھتے رہے ....
چوکیدار آج بھی اس گھر میں ہے، گھر کے مالکوں سے زیادہ گھر کا مالک، کوئی فیصلہ اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا...
ویسے کیا میں نے آپکو بتایا کہ اس کہانی کے تمام کردار فرضی ہیں اور کوئی بھی کردار یا واقعات سے مماثلت مکمل اتفاق ہی سمجھا جائیگا!!!؟؟
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment