Sunday, April 13, 2014

موجودہ ملکی حالات پر تبصرہ

تو جناب ہوا کچھ یوں کہ کچھ جماعتوں نے کہا کہ مذاکرات کرلیے جائیں، ٹھیک رہے گا. ادھر سے مذاکرات مخالف افراد نے زور لگایا دوسری جانب میڈیا نے انہیں پورا پورا سہارا دیا. مذاکرات کی کمیٹی بنی قافلہ نکلا تو پورا تھا جب منزل پر پہنچا تو صرف پروفیسر ابراہیم رہ گئے. مذاکرات کامیاب ہوگئے اور جنگ بندی ہوگئی، تعریف کے ڈونگرے پھر بھی نہ برسے، اور تعریف مانگتا بھی کون ہے اس مردِ قلندر کو تو بس قوم کیلئے امن درکار تھا سو حاصل کیا.
مذاکرات کی مخالفت کرنے والی مذہبی جماعتوں میں پیش پیش سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت، چلو ایک اچھی پیش رفت یہ کہ دونوں مسالک "ایک" ایجنڈے پر متفق ہیں (ایجنڈا کس کا ہے، یہ چھوڑ دیں) .. باقی رہ گئے اس ملک میں رہنے والے بقیہ 99 فیصد افراد تو جناب بلڈّی سویلینز کی پہلے ہی سنتا کون ہے. اب تو طالبان بھی دھماکوں کی کھل کر مذمت کر رہے ہیں مذاکرات مخالف افراد اب کس بنیاد پر کریں گے مخالفت. ابھی کچھ دن جو امن کے ملے ہیں وہ مذاکرات کی ہی مرہون منّت ہیں، اسی امن کا فائدہ اٹھا کر تو "قوم کا وقار" باہر بھاگنے کے موڈ میں ہے، قوم کو چاہیے کہ "قوم کے وقار" کو باہر نہ جانے دیں،قوم کا وقار باہر چلا گیا تو پیچھے کیا رہ جائیگا؟ ٹھینگا!
بعض لوگوں نے تان اڑائی کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن کا ہوگا امن. یار لوگ گنتے رہے. جمعہ جمعہ پورا مہینہ ہوگیا اور پھر جنگ بندی مزید اور عرصہ طویل ہوگئی. اب پوچھو تو جواب نہیں، کاٹو تو لہو نہیں!
وطنِ عزیز پہلے بھی نازک دور سے گزر چکا ہے، یہ دور بھی گزر جائیگا. اس ملک کے چاہنے والے ذلت پہلے بھی بھگت چکے ہیں، زخم اور سہہ لیں گے، پروا نہیں! نعرہ پھر بھی لگتا رہیگا پاکستان زندہ باد! پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ!
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments