اچھا بہانہ ہے جب کسی کی بات نہ ماننی ہو تو اس کی بات سے بات نکالو، سوالات کرو اور جواب سننے سے پہلے اگلا سوال داغ دو. اب یہی دیکھ لیں، جب کوئی اسلام کے نفاذ کی بات کرے تو جواب میں سوال ملتا ہے کہ "کون سا اسلام؟" جیسے انکے نزدیک نعوذباللہ اسلام کی کئی اقسام ہیں. اسلام تو ایک ہی ہے اللہ اور اس کے رسول کا اسلام. اب ایسا سوال سن کر آپ سمجھ جائیں کہ اگلا شخص بات نہیں سمجھنا چاہ رہا بلکہ باتوں میں لگانا چاہ رہا ہے.
اس ہی طرح ان افراد کا کام ہوتا ہے کہ دوسرے افراد کو لایعنی بحثوں میں الجھاۓ رکھنا. کوئی جہاد کی بات کرے تو کہتے ہیں "کون سا جہاد؟" کشمیر کا، افغانستان کا، عراق کا، شام کا یا کدھر کا. آپ کہیں کشمیر تو یہ کہیں گے کہ وہ تو ایجنسیوں کا جہاد ہے، آپ کہیں افغانستان تو کہیں گے کہ وہ تو امریکہ سپورٹڈ جہاد تھا، آپ کہیں عراق و شام تو یہ کہیں گے کہ وہ تو فرقاوارانہ لڑائی ہے. غرض الجھاۓ رکھنا مقصود ہو تو بہانے ہزار اور سمجھنا مقصد ہو تو قرآن کی ایک آیت بھی کافی ہوجاتی ہے.
مولانا مودودی (رح) نے ایسے ہی افراد کے بارے میں لکھا تھا کہ اگر آپ ہماری دعوت سمجھنا چاہیں تو ہم سمجھانے کیلئے حاضر ہیں لیکن اگر آپ کا مقصد سمجھنا نہیں بلکہ الجھنا اور الجھاۓ رکھنا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں آپ جب تک چاہیں اپنا شغل جاری رکھیں.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment