پاک فوج کو سلام |
ہائی وے پر دھیمی رفتار سے چلتے ہوئے دیکھتا ہوں کہ ہر دوسرے ٹرک کے پیچھے یہ جملہ لکھا ہے، "پاک فوج کو سلام". میرا دل بھی کہتا ہے میری پاک فوج کو سلام، پاک فوج زندہ باد. یقیناً آپ سوچ رہے ہونگے کے فوج کو تنقید کا نشانہ بنانے والے شخص کو آج فوج پر اتنا پیار کیسے آرہا ہے؟ تو جناب سن لیجئے تنقید برائے اصلاح انہی کیلئے کی جاتی ہے جن سے محبت ہوتی ہے اور جن لوگوں کے بارے میں بھلائی کی چاہت ہوتی ہے، یہ تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے. میری اور میرے جیسے بیشتر نوجوانوں کی تربیت اس ہی پیرائے میں ہوئی ہے، پاک فوج سے محبت ہماری تربیت کا خاص جز ہے. چھوٹا سا لڑکا، جو ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتا لیکن جب سوال کیا جائے کہ بیٹا کیا بنو گے؟ تو جواب آتا ہے "فوجی جوان"، یقیناً اس طرح کا جواب سن کر ماں باپ کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا ہے. آرمی، نیوی، ایئرفورس ہمارے بچپن کے آئیڈیل! کینٹ کے علاقوں سے گزرتے ہوئے ایک تحفظ کا احساس، ہڑتال اور خراب حالات جب پولیس بھی سڑکوں پر نہ نکلے ایسے میں رینجرز کی گاڑی ہمیں حوصلہ دلاتی ہے.
لیکن اتنی محبت کے باوجود یہ فاصلے پیدا کیسے ہوئے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب جاننا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اس سب معاملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہم سب کا فرض ہے، نہیں تو کم از کم یہ ضرور جانیں کہ اس خلیج کو پیدا کرنے کا ذمہ دار کون ہے!
فاصلے کبھی یوں نہیں پیدا ہوتے بلکہ افراد کا عمل فاصلے پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے. قائد اعظم کانگریس کے لیڈران میں سے تھے لیکن فاصلے پیدا ہوئے اور انکو الگ ہونا پڑا، "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" کا ترانہ لکھنے والا قلم اقبال کا ہی تھا پھر اس ہی ذہن نے علحدہ پاکستان کا تصور دیا، چند افراد کے رویّوں نے بنگال کے عوام کو اتنا متنفر کردیا کہ وہ سرزمین جہاں سے مسلم لیگ کا آغاز ہوا تھا وہاں کے باسیوں نے اعلان بغاوت کردیا... کیا یہ سب شروع سے پلان کا حصہ تھا؟ نہیں! بلکہ انکے نظریات کی تبدیلی میں حالات، واقعات اور سب سے بڑھ کر افراد کے رویّوں کا ایک بڑا ہاتھ ہے.
آج پاکستان کی افواج، عوام اور دوسرے اداروں کے درمیان جو خلیج حائل ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یقیناً ہم سب جانتے ہیں کہ ایک فرد واحد کی بزدلی اور کم ہمّتی نے بحیثیت قوم ہمیں اس پستی اور گہرائی میں دھکیل دیا جہاں سے واپس اپنے سابقہ مقام تک آنے میں ہمیں دہائیاں لگ سکتی ہیں. وہ ایک شخص جس کے ظلم و جبر کے رویّہ، نفرت آمیز بیانات اور انا پرستی نے اداروں کو آپس میں لڑوایا. یہاں تک کہ ہمارے عوام اور افواج کے درمیان دوریاں پیدا ہونی شروع ہوگئیں،باہم دست و گریباں کی کیفیت پیدا ہوگئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اپنی ہی زمین ہماری افواج اور ہمارے عوام پر تنگ ہوتی گئی، یہ سب کچھ صرف اُس ایک شخص کی وجہ سے جس نے اس قومی ادارے کو اپنی انا کی تسکین کی بھینٹ چڑھا دیا.
ایک شخص پورا دن روزہ رکھے لیکن وقتِ افطار سے قبل روزہ توڑ دے تو نہ صرف اس کا روزے کا ثواب جاتا رہتا ہے بلکہ الٹا کفارہ بھی واجب ہوجاتا ہے. یہی کچھ پرویز مشرف نے کیا اور اس کا خمیازہ بھگتا، چالیس سال کی ملک و قوم کیلئے فوجی خدمات کو بیشک سلام لیکن آخر وقت میں اقتدار کی بھوک میں آئین کی پامالی، اداروں کی تذلیل اور افواج کے مورال کو گرانے والے شخص کیلئے سب سے اچھا انصاف صرف یہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کو اس ملک کی عدالت کے ذریعہ سزا دلوائی جائے تاکہ آنے والے دور کیلئے یہ ایک عبرتناک مثال بن کر سامنے آئے، لیکن اگر اس کے برعکس مقتدر اداروں کی جانب سے ان سب کے ذمہ دار جناب مشرف کو سہارا دیا گیا اور کلین چٹ دے دی گئی، تو آنے والے دور میں تاریخ ایک نیا نوشتہ لکھے گی، لیکن اس دفعہ کہانی میں ہمارا نام نہ ہوگا.
ابنِ سیّد
No comments:
Post a Comment