Saturday, April 12, 2014

آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے...




کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ معمول کے مطابق فیس استعمال کر رہا تھا. کہ یکایک ایک دوست کی فرینڈ ریکویسٹ آگئی. میں نے پوچھا بھائی اچھے بھلے دوست تھے یہ دوبارہ دوستی کی کیا سوجھی (پھر خیال آیا کہ آج کل چلی ہوئی ہواکا رخ دیکھتے ہوئے کہیں دوستوں کیلئے الگ اور رشتہ داروں کیلئے الگ پروفائل تو نہیں بنا ڈالی) کہنے لگا کہ تجھے ان فرینڈ کیا ہوا تھا (میں نے دل میں سوچا بھائی ان فرینڈ کیا ہوا تھا تو کیے رہتا خود بھی سکون سے رہتا اور مجھے بھی ...) بہرحال وجوہات پوچھنے پر کہنے لگا کہ تم جس نظریہ کا پرچار کرتے رہتے ہو وہ نظریہ مجھے پسند نہیں، لہذا یہ سب بند کرو ورنہ ان فرینڈ کردوں گا. دل میں خیال آیا کہ ان کو یاد دلاؤں کہ کچھ دن پہلے آپ نے بھی ایک پوسٹ ڈالی تھی جس میں کچھ لوگوں کو کافر قرار دیا گیا تھا، اس سے پہلے آپ گانے وغیرہ بھی شیئر کرتے رہے ہو. لیکن اس سب پر ہم بھی تو برداشت کر رہے ہیں.

یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی ایک دوست صاحب اس طرح کی وارننگ دے چکے ہیں کہ بند کرو یہ سب اپنے نظریات کا اظہار ورنہ بلاک دونگا. کچھ اور دوست ان نظریات پر بحث کرتے رہے اور میں ان کا جواب دیتا رہا لیکن کچھ عرصہ بعد وہ نظر نہ آئے، معلوم کیا تو ان فرینڈ نظر آئے.

کیا ہمارے معاشرے میں برداشت بالکل ختم ہوچکی ہے؟ کیا اختلافِ رائے کے احترام کا تصور ناپید ہوچکا ہے؟ شاید ہاں! ہم میں سے بہت سے لوگ صرف وہی کچھ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں جو انہیں اچھا لگتا ہے مگر جب آئینہ کا دوسرا رخ انکی جانب کیا جاتا ہے، انکے خیالات کا خوش نما میک اپ اتار کر انکے سامنے جب ان خیالات کی اصل بدنما شکل پیش کی جاتی ہے تو ان کے دل کو اس قدر دکھ ہوتا ہے کہ برداشت نہیں کرپاتے. یہ اختلافِ رائے کو نہیں سہ پاتے. انہوں نے اپنی ایک رائے قائم کی ہوئی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ انکی آنکھوں کے سامنے حالات کا وہی چہرہ پیش کیا جائے جو انہوں نے تخلیق کیا ہوا ہے. مگر ریت میں منہ چھپانے سے طوفان رک نہیں جاتا، جلد یا بدیر جب سچائی سامنے آتی ہے تو پھر انسان کو اپنے رویہ پر ندامت ضرور ہوتی ہے.

سوشل میڈیا کوئی ایک الگ دنیا نہیں ہے، اور یہاں موجود لوگ بھی کسی اور دنیا کے نہیں! یہاں ہم اور آپ جیسے لوگ ہی ہیں جو اس معاشرے کا حصہ بھی ہیں، یہاں ہر شخص اپنے اپنے حساب سے چلتا ہے کوئی یہاں دوستی کیلئے ہے، کوئی وقت گزاری کیلئے، کوئی کاروبار کیلئے اور کوئی تحریکیں برپا کرنے کیلئے. اور اس دوران ہمیں کئی طرح کے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہے جن میں سے بہت سوں سے ہمارا نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے. اب فیصلہ ہم پر ہے یا تو ان تمام اختلافی آراء کا احترام کرتے ہوئے اس کیساتھ جینا سیکھیں یا پھر سب مخالف نظریات کے افراد کو ان فرینڈ کرکے اپنے ذات کے خول میں بند ریت میں منہ چھپائے بیٹھے رہیں. طوفان پہلے بھی آتے رہے ہیں اور ان کا مقابلہ بھی لوگ کرتے رہے ہیں لیکن حالات کے بدنما پہلو سے کنّی کترا کر ریت میں منہ چھپانے والے کبھی تبدیلی نہ لا سکے اور نہ لا سکتے ہیں. فیصلہ آپکا!

ابنِ سیّد

 

Image taken from here

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments