Monday, April 7, 2014

فحاشی کیخلاف مہم

بالآخر قاضی حسین احمد صاحب نے جس کام کو شروع کیا اور تمام اسلامی جماعتیں جس پر یکسو تھیں خاص طور پر تنظیم اسلامی کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں، اس مہم کا ایک اہم قدم جماعت اسلامی کی جانب سے پارلیمنٹ میں فحاشی کیخلاف آواز اٹھانا ہے. جماعت اسلامی نے پیمرا کے اصولوں پر عمل کرنے کا کہتے ہوئے پاکستان آئیڈول اور مختلف فحاشی کو فروغ دیتے پروگرامات کو بند کرنے کے بارے میں بات کی. آج اس بات کو ملک کی غالب اکثریت بھی مان رہی ہے بلکہ خود میڈیا میں کام کرنے والے افراد اس بات پر متّفق ہیں کہ میڈیا کو بہت غلط رخ پر لیجایا جارہا ہے. جب کسی پانی میں گندگی ہلکے ہلکے ملائی جائے تو گندگی زیادہ ہونے کے باوجود اس کا ادراک دیر سے ہوتا ہے. یہی کچھ میڈیا نے کیا، فحاشی کی شروعات ہلکے ہلکے ہوئی اور اب تو ٹی وی پر آنے والی خاتون کو ڈوپٹہ سر پر ڈالنا معیوب سا لگنے لگا ہے کجا کہ اسے پابند کیا جائے.
بعض لوگ کہتے ہیں "فحاشی کی سب کی اپنی اپنی تعریف ہے. کسی کیلئے فحاشی کا معیار کچھ ہے اور کسی کیلئے کچھ تو کس معیار کی پابندی کی جائے، فحاشی کی کون سی تعریف کو درست مانا جائے؟" تو جناب سب کا معیار الگ ہے اور اس معاملے میں اختلاف ہے تو کیا گدھے گھوڑوں کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے؟ اس طرح تو کرپشن کی بھی اپنی اپنی تعریف ہے، میں رشوت کو ناجائز سمجھتا ہوں جبکہ کوئی دوسرا اس کو اپنا حق گردانتا ہے تو کیا اس کو کرپشن کا حق حاصل ہوگیا؟ ہرگز نہیں! فحاشی کی مختصر تعریف یہ ہے کہ "ہر وہ چیز جو زنا کی جانب لیجائے". جس طرح معاشرے کی اور خرابیوں کی بذریہ قانون روک تھام کی جاتی ہے بالکل اس ہی طرح فحاشی بھی ایک خرابی ہے اور اس کی بھی روک تھام ضروری ہے.
یہاں ایک اور اہم بات، سوال یہ نہیں کہ کوئی کیا چاہتا ہے، نہ یہ ہے کہ پیمرا کے قوانین اور ضابطہ اخلاق کیا کہتے ہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ اس بارے میں اسلام کے اصول کیا ہیں.
یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی مملکت میں ایسی گستاخانہ باتیں اب سرعام پارلیمنٹ میں ہورہی ہیں. جماعت اسلامی کے موقف کے مقابل ایک صاحب نے مضحکہ اڑاتے ہوئے ریموٹ کنٹرول کے استعمال کا مشورہ دیا یعنی برائی ہوتے دینے اور ریت میں منہ چھپانے کا مشورہ، چوری ہوتے دیکھ کر منہ پھیر کر نکل جانے کا مشورہ، واضح رہے سابقہ حکومت میں زرداری صاحب کی تضحیک کے سدباب کیلئے موبائل، سوشل میڈیا اور میڈیا کریک ڈاؤن بھی کیا گیا تھا. یعنی صدر کی تضحیک برداشت نہیں لیکن اسلامی شعائر کی تضحیک برداشت بھی ہے اور اس کا دفاع بھی کیا جارہا ہے.
اب قوم کو سب سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر مذکورہ معاملے میں جماعت اسلامی کا کھل کر ساتھ دینا چاہیے. کیوں کہ یہ کسی ایک فرد یا پارٹی کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے، ہماری آنے والی نسلوں کے اخلاقی معیار کا مسئلہ ہے! یقیناً "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" ہم سب پر فرض ہے!
ابنِ سیّد

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments