Monday, March 31, 2014

ہم کیا چاہتے ہیں ... ایلن واٹس کی تھیوری کا مفہوم

ہمیں دنیا میں کیا کرنا ہے، کیا بننا ہے، کون سا پیشہ اپنانا ہے. یہ سب ہم اپنے والدین یا بڑوں سے سیکھتے ہیں، کیریئر کونسلنگ ایک بہت وسیع فیلڈ ہے اور ہر انسان کی ضرورت ہے، ہمارے ملک پاکستان میں کیریئر کونسلرز کی بہت قلّت ہے جبکہ باہر کے ممالک میں یہ ایک مستقل پیشہ ہے اور بہت سے افراد اس دے استفادہ کرتے ہیں. ایک کیریئر کونسلر کسی بھی شخص کی شخصیت کا جائزہ لینے کے بعد یہ مشورہ دے سکتا ہے اس کے لئے کون سا پیشہ ٹھیک رہے گا، بالخصوص اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ اس شخص کا شوق کیا ہے. وہ کون سا پیشہ ہے جس میں جانے کے بعد مذکورہ شخص کامیابی کی منازل طے کرسکتا ہے.
ایلن واٹس ایک مشہور فلسفی ہے، کہتا ہے کہ میرے پاس اکثر طلباء آتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ہم کالج سے فارغ ہورہے ہیں اور ہمیں ذرا بھی اندازہ نہیں کہ ہمیں کس پیشے سے منسلک ہوںا چاہیے، تو میرا ہمیشہ ان سے سوال ہوتا ہے کہ "تم" کیا کرنا چاہتے ہو، تمہارا شوق کیا ہے. جس پر مجھے کافی دلچسپ جواب ملتے ہیں کہ ہم لکھاری بننا چاہتے ہیں، مصور بننا چاہتے ہیں لیکن اس طرح پیسہ کمانا مشکل ہے. جب ہم ایک نکتہ پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں یہ خاص کام کرنا چاہتا ہوں تو میں اس سے کہتا ہوں کہ تم وہی کرو. جیسے ایک شخص نے کہا کہ اسےباہر کی زندگی (آؤٹ ڈور لائف) پسند ہے اور گھڑ سواری کا شوق ہے، تو میں نے کہا کہ تم ایک گھڑ سواری کے اسکول میں استاد بن سکتے ہو. کیوں کہ ایک شخص کا جو شوق ہو تو وہ اپنے اس شوق اور جنون کی حد تک کی لگن کے باعث اس کام کا چیمپئن بن جاتا ہے. کسی بھی کام میں استادی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اس کا شوق رکھتے ہوں اور ایک بار جب آپ اس شوق میں ڈوب جائیں اور اس کام میں ایکسپرٹ (تجربہ کار) ہوجائیں تو پھر لوگ اس کام کو سیکھنے یا اس کام کو آپ سے کروانے کیلئے منہ مانگی فیس دینے پر راضی ہونگے اور اس طرح آپ اپنے شوق کو پیشہ میں تبدیل کرسکتے ہیں.
لیکن دوسری جانب ہم دراصل کر کیا رہے ہیں ہم ساری زندگی وہ کام کرتے رہتے ہیں جس کا ہمیں شوق نہیں ہوتا اور جب گھر آتے ہیں تو تھکن سے چور اور اگلے دن جانے سے بیزار لیکن جانا تو پڑتا ہے. اس ہی بیزاری کی وجہ سے ہم اس کام میں ترقی نہیں کرسکتے. ہم ساری زندگی اس ہی طرح غیر مطمئن زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنے آنے والی نسلوں کی بھی تربیت اس ہی طرز پر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے آنے والی نسلوں کو بھی یہی طرز عمل دے کر جائیں، اور اپنے کئے ہوئے عمل کو صحیح ثابت کرسکیں لیکن ہم جانتے ہیں ہم وہ نہیں کررہے جو ہم چاہتے ہیں. اور اس ہی لئے یہ سوال بہت معنی رکھتا ہے کہ "ہم کیا چاہتے ہیں".
ابنِ سیّد

Saturday, March 29, 2014

Story of A good quality inspector

During my job tenure I came across to know many type of people, i have seen and heard a lot of stories, from which some incidents have a very good and profound effect on my mind and I try to use them as a good example in my trainings and presentations.
Once I was quality auditing a firm as per ISO 9001. I was at the incoming material and parts inspection area where I found out that some identical items are been rejected since so long and a huge number of rejection reports are available for the said items. I inquired the person who was in-charge of the incoming inspection area, "whats the matter? I can see a lot of rejection reports and on the other hand I can also see the material is been used in the production line too". The person replied that "the material parts are not up to the benchmark, they are not according to the specification" he picked up a vernier calipper and showed me some samples which were rejected. He said that when he rejects a part or lot, he received a call from the Quality Manager who orders him to pass the parts / lot, but he always refuse to do so. Later on he put them in rejection bin which is later been picked by production staff and all material is used without him permission, consent and approval.
Here the lesson is, the quality inspector was enforced through social engineering to go against the process but he refused.
We counter many time in our life when we were instructed by our management to go beyond the process and sadly we obey. But despite been on a very small position the courage of that quality personnel was remarkable. There is a whole study "Learn to say No", do we ever considered that?

SyedOwaisMukhtar

جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں

ایک مشکل کے دور میں نمازیں پڑھ پڑھ کر اللہ سے دعائیں مانگ رہا تھا، جب کوئی مصیبت آتی ہے ہم میں سے اکثر یہی کرتے ہیں، بہرحال میں نے قرآن کھولا اور چند صفحہ پلٹائے ہی تھے کہ سامنے ہی ایک آیت نظر آئی، مفہوم کچھ یوں تھا ..

اور جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور جب وہ پریشانی کا دور گزر جائے تو اللہ کو ایسے بھول جاتے ہیں جیسے کبھی وہ مصیبت آئی ہی نہ ہو

بے اختیار لبوں پر مسکراہٹ آگئی، اے اللہ! آپ تو دلوں کے حال سے بھی واقف ہیں

ابنِ سیّد

Remember what they say, Prayer is not a spare wheel that pull out us when we are in trouble.

We must use it as a steering wheel, that keeps us on the right path throughout in our life.

Thursday, March 27, 2014

غم، مایوسی، امید، روشنی!

"جب میں بہت تھک گیا تو اس نے مجھے آرام دیا اور جب میں تازہ دم ہوگیا تو پھر نئے سرے سے تلاش شروع ..."
Life Of Pi


ہر غم کے بعد خوشی ہے
نا امیدی کفر ہے


میں جب بھی ناامیدی کی کیفیت میں ہوتا ہوں، زندگی اداس لگنے لگتی ہے. ایسے لمحات جب کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ کیا ہورہا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اب سب کچھ ختم ہوگیا ہے. پھر میری نظر سورہ بقرہ کی آخری آیات پر پڑتی ہے "اے رب ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کے اٹھانے کی ہم می طاقت نہیں" پھر میں دیکھتا ہوں کہ دوسرا حکم مجھے ملتا ہے کہ "ایمان والے تو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے" . اور پھر نتائج کی پروا کئے بغیر اپنی کوشش کرتے ہوئے سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتا ہوں. اور پھر یہ حقیقت آشنا ہوتی ہے کہ ہمارے دین نے کیوں خودکشی حرام قرار دی ہے. ارے اتنی جذبہ جگانے والی، مایوسیوں کو بھگانے والی، اور رحمت کا یقین دلانے والی باتوں کے بعد بھی اگر کوئی ناامید ہوتا ہے تو بہت ہی غلط بات ہے. اور جب اس ہی یقین کے ساتھ جب اللہ پر سب فیصلے چھوڑ دو تو پھر یہ بات کھلتی ہے کہ یقیناً ہر اندھیرے کے بعد اجالا ہے... یقیناً!
ابنِ سیّد

Monday, March 17, 2014

وادی کا بیٹا‏


وہ ان وادیوں کا بیٹا تھا، لمبے درختوں جیسا اونچا، پہاڑوں جیسا مضبوط سراپا اور حوصلہ. لیکن ہمیشہ سے وہ ایسا نہیں تھا وہ تو ایک کمزور اور کم عمر سا لڑکا تھا جو کچھ نہ بتائے بھی اپنی غلامی محسوس کرچکا تھا، وہ اس طرح فوجیوں کا گھر گھر تلاشی لینا، لوگوں سے نفرت آمیز انداز میں بات کرنا، وہ بتائے بن بتائے کی روک ٹوک اور تلاشیاں، کسی کے نہ بتائے بھی وہ سمجھ گیا کہ یہی غلامی ہے.
 وہ اور اس کے ساتھی اِس غلامی کیخلاف سراپا احتجاج تھے، اپنی تحریک کی خاطر لوگوں سے رابطے رکھنا، جلسے جلوس کانفرنس کروانا، کبھی ہڑتال، اور کبھی کبھار تصادم بھی ہوجاتا. لیکن وہ اس تحریک کو لیکر بڑھتے رہے، پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے انہی دوستوں میں سے کچھ غائب ہوئے اور پھر ان کی لاشیں ملیں، کتنا رویا تھا وہ، نہ جانے کب وہ بھی استعمار سے دو دو ہاتھ کرنے نکل پڑا پہلے پہل پتھر اور غلیل اور بالآخر آتشی ہتھیار، کب تک ظلم سہتا؟ کب تک جبر پر روتا.
 کشمیر بنے گا پاکستان، اس کی ڈائری کے ہر صفحہ کی شروعات انہی الفاظ سے ہوتی. اور پھر وہ وقت بھی آیا جب اس کے مجاہدانہ کردار کی بدولت ان پر ہونے والی بدسلوکیاں کم ہوگئیں. وہ وادی کا سب سے جری کمانڈر بن کے سامنے آیا، اس نے قابض فوج کو پیچھے ہٹنے اور دھول چاٹنے پر مجبور کردیا. اس کے قصّے اخبارات اور میڈیا میں آنے لگے. وہ دونوں اطراف کے عوام کا ہیرو بن چکا تھا.
 سرحد کے اس پار پاکستان کی پاک فضاؤں سے اسے عشق تھا، جب بھی آتا تو شکرانے کے نفل ضرور پڑھتا. وہ اس وقت کے بارے میں سوچتا جب وادی بھی انہی پاک فضاؤں کا حصہ بنے گی. اس ہی مقصد کی خاطر تو اس کی جانباز جدوجہد جاری تھی.
 مگر پھر کچھ یوں ہوا کہ اسکے لئے زمین تنگ سےتنگ ہوتی گئی، دم گھٹنے لگا اس کا ان فضاؤں میں جہاں وہ آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا، حالات کچھ اس نہج پر آگئے کہ مجبوراً اسے سرحد پار آنا پڑا مگر یہاں آکر اندازہ ہوا کہ یہ فضائیں بھی اجنبی سی لگ رہی ہیں، نہ جانے کیوں وہ اپنوں میں بھی اجنبی بن کے رہ گیا تھا. جو دروازے اس کیلئے کھلے رہتے تھے وہ آج بند ہوچکے تھے، جو لب اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے آج خاموش تھے.
 وقت بدل چکا تھا، ان پاک فضاؤں کیلئے اس کا وجود ناپاک ٹھہرا، وہ یہاں بھی اجنبی بن چکا تھا. گھر گھر تلاشیاں، وہی روک ٹوک، راستے میں تلاشیاں اور ہتک آمیز رویہ. اس کے ہر نام اور کام کےساتھ لفظ کالعدم لگ چکا تھا. وہ اس کے اپنے تھے، شاید، وہ ان کی بے رخی بے وفائی کی تاب نہ لا سکا، وہ ٹوٹ چکا تھا. پھر وہی ہوا جو سرحد پار ہوا کرتا تھا قید و بند کی صعوبتیں اس کے حصے میں آئیں، اس کے "جرائم" کی فہرست بھی تو بہت لمبی تھی.
 بالآخر وہ دن بھی آیا جب اپنوں کی بندوقوں کا رخ اُس کی جانب ہوگیا، یہی جرم ٹھہرا اسکا کہ وہ اپنے لوگوں کو آزادی دلانا چاہتا تھا، مگر اس کے مقاصد "امن کی آشاء" سے متصادم ہوتے تھے. اتنا بڑا جرم! عسکریت پسندی، شدت پسندی، دہشتگردی، کراس بارڈر ٹیررسم، یہ تمام القاب اس کیلئے استعمال ہوئے مگر وہ تو ایک مجاہد تھا، وادی کا بیٹا، استعمار کیلئے خوف کی علامت. آج بھی اس کی ڈائری کے ہر صفحہ کی پہلی سطر پر یہی لکھا ہوتا تھا، "کشمیر بنے گا پاکستان". اپنے بھائیوں کی جانب سے بیوفائی نے اس کو ٹھیس پہنچائی لیکن اس نے صبر کیا. وادی کے لوگوں کیلئے وہ آج بھی ہیرو ہے. یہ اس کے وجود کا پہلا حصہ تھا جو حالات کے ہاتھوں مجبور ہوگیا اور گوشہ نشینی میں چلا گیا.
 مگر اس کے وجود کا ایک اور حصہ بھی ہوا جو کہ وادی کے لوگوں کی پکار پر لبیک کہتا ہوا اپنی ساری جدوجہد وادی کیلئے صرف کرنے لگا.
 لیکن تیسرا حصہ وہ تھا کہ جب اپنوں کی بندوقوں کا رخ اس کی جانب ہوا تو نہ چاہتے ہوئے بھی جواباً اس نے بھی اپنے ہتھیاروں کا رخ انکی طرف کردیا.
 یہ وادی کا بیٹا کون تھا، اور اس کے وجود کے تین حصے کون تھے. یہ اگر ایک فرد کی کہانی ہوتی تو شاید کہانی مکمل بیان ہوپاتی لیکن کیوں کہ یہ وادی کا بیٹا وادی کے بلکہ سرحد پار بھی کئی لاتعداد کرداروں میں سے ایک ہے لہذا اس کہانی کو ان ہی کرداروں کی بنیاد پر پرکھا جائے تو ٹھیک رہے گا. یہ کردار اب بھی موجود ہیں، یہ کہانیاں اب بھی جا بجا بکھری پڑی ہیں جرأت، بہادری، جذبہ، محبت، بیوفائی، فخر کا ملا جلا سا رویہ ان تمام کہانیوں میں ملے گا. ضرورت ہے تو اس بات کی کہ کوئی ان کہانیوں کو پڑھے ان کی روداد کو سمجھے، ان کی زندگیوں میں جھانکے، ان کرداروں کے جذبات کو محسوس کرے اور پھر اپنی رائے قائم کرے کہ کون مجاہد ہے کون عسکریت پسند، کون ہیرو بنا اور کون معتوب ٹھہرا. یہ کہانیاں اب بھی زندہ ہیں کوئی تو پڑھے... 

ابنِ سیّد

Wednesday, March 12, 2014

لبرلز کو آفریدی کی ذاتی رائے کیوں نہ ہضم ہوئی

لبرل فسادی بہت ہی دو نمبر مخلوق ہیں (انکی زبان میں آکورڈ بھی کہتے ہیں) ، آفریدی جیسی غیر متنازعہ شخصیت کو بھی متنازعہ بنا دیا.
آفریدی سے ایک انٹرویو میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا آپکو اچھا لگے گا کہ پاکستانی خواتین اسپورٹس میں آگے آئیں. جس کے جواب میں آفریدی نے جواب کو ٹالتے ہوئے موضوع بدلا اور کہا کہ ہماری خواتین کے ہاتھ میں ذائقہ بہت ہے اور کھانے بہت اچھے بناتی ہیں.
اس بات پپر لبرل فسادیوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا اور اب تک ڈان اور ایکسپریس ٹریبیون میں کئی بلاگ اور خبریں اس موضوع پر شائع ہوچکی ہیں اور بلاوجہ اس ڈیبیٹ میں اس کو گھسیٹا جارہا ہے جس بحث کو اس نے خوبصورتی سے ٹال دیا تھا.
دیکھا جائے تو ایک جانب ہمارے ملک کے نام نہاد لبرل ایک طرف مذہب کو ایک شخص کا ذاتی معاملہ قرار دیتے ہیں اور دوسری جانب ایک شخص کو اس کے نظریہ کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں. یہ کہہ رہے ہیں کہ آفریدی چاہتا ہے کہ عورتوں کو گھر میں قید کردیا جائے لیکن انہیں یہ نظر نہیں آرہا کہ وہی بندہ اس عورت کے کھانوں کی تعریف کر رہا ہے اسے عزت دے رہا ہے. شاید ان لبرلز کے نزدیک عورتوں کی بل بورڈز پر تذلیل عزت افضائی ہے، جو چاہے ان کا کرشمہ ساز کرے.
یہ دیسی اور نام نہاد لبرلز ہیں، یہ باتوں سے نہ مانیں گے!

ابنِ سیّد

Lahore High Court Decision on NTS GAT


I bought a book today for the preparation of GAT test, guess what I got the news on social media some friends of mine shared that Lahore High Court had given the notice to HEC to cease the requirement of NTS GAT test. I am not sad that I lost some money on the book ;) infact I am happy on this decision.

Giving an entry test means the institute you are prospecting does not trust your previous qualification, if you have done intermediate then already you are eligible for admission in Bachelor's program, similarly if you are a graduate then automatically you are eligible for the Postgraduate (or Masters program). But, why to give another test specially with some out of the world question to get or lose a further studying opportunity.

This is also I have explained in one of my Urdu blogs here:
http://syedowais.blogspot.com/2013/10/blog-post_31.html
and here
http://www.saach.tv/2013/11/02/dakhla-test-faida-ya-nuksan/

پاکستانی میوزک انڈسٹری کا کچا چٹھا

میں جن موضوعات پر لکھتا ہوں ان سے کافی ہٹ کر موضوع ہے، بہرحال کچھ عرصہ قبل ان جھمیلوں کا ایکسپرٹ تھا، پھر حالات بدلے، مگر رائے اور تنقید کا حق اب بھی رکھتا ہو، پڑھیں اور سَر دھنیں!!!
پاکستان میں کوئی میوزک انڈسٹری نہیں یہ سب انٹرٹینر ہیں، یہ شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کہ میوزک کرنے آئے کل اگر انہیں میوزک میں کام نہیں ملے تو "ہم" ٹی وی کے ڈرامے بھی کر لیں گے وہ بھی نہیں تو ماڈلنگ یا چپس پاپڑ کے ایڈورٹائز، انہیں اسکرین پر رہنا ہے اور یہ اپنے اس مقصد میں کامیاب رہیں گے، باقی رہی میوزک انڈسٹری وہ جائے چولہے میں.
بچی کچھی انڈسٹری کے معیار کا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا میوزک مقابلہ اور اس میں ایک جج ایکٹر ہے، دوسرا جج خودساختہ راک اسٹار اور تیسرا نام بھی کچھ ایسا ہی ہے. یعنی جب آپ کو جج ہی نہ ڈھنگ کے مل سکے تو کینڈیڈیٹ کیا خاک ملیں گے اور مل بھی جائیں تو جج کیسا فیصلہ کریں گے یہ جج حضرات کی حالت دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکتے یہی.
پچھلی ایک دہائی سے پاکستانی سنگرز میوزک سے کنارہ کش ہو کر اسلام کی جانب پلٹ رہے ہیں، اب یہ کیسا پلٹ رہے ہیں یہ خود اندازہ لگائیں. پہلے ہیں نجم شیراز صاحب میوزک چھوڑا نعتیں پڑھیں اور پھر چند گانے دوبارہ گا لئے. علی حیدر نے گانے چھوڑے اور نعتیں اور منقبتیں میوزک کے ساتھ شروع کردیں کچھ دن بعد گانے پھر شروع مزید ایک ڈرامہ بھی شروع اور تھوڑے عرصہ کے بعد داڑھی غائب! شیراز اُپل ٹھیک رہے دو سال قبل گانے چھوڑ چکے تھے مگر حیرت انگیز طور پر ایک نئی ہندی فلم میں ان کا گانا ٹائٹل سونگ ہے،لیکن ذرائع کے مطابق دو سال قبل کا ہی ریکارڈ شدہ ہے (لہذا بدگمانی نہ کریں! ) اور پھر فائنل آتے ہیں مشہور و معروف جناب جنید جمشید صاحب گانے چھوڑ دیے بعد ازاں سلمان احمد کے ساتھ تحریک انصاف کا گانا نیا پاکستان گا لیا! (اب یہ مت کہنا اس حصہ میں میوزک نہیں تھی، سننے والا پورا ہی سنتا ہے صرف بغیر میوزک والا وہ حصہ سن کر بند نہیں کرے گا)
مزید زہر اگلنے کیلئے پھر حاضر ہونگا.
منتظر رہیں ;)

Tuesday, March 11, 2014

میں کیوں لکھتا ہوں

میں لکھتا اس لئے ہوں کیوں کہ میں سمجھتا ہو کہ اس ذریعہ سے میں اپنی بات اپنے مخاطبین تک بہتر طور پر پہنچا سکوں گا. بعض افراد کسی خاص، واقعہ، عمل یا ردّعمل پر "بات" کرنا پسند کرتے ہیں اور اس کیلئے وہ جس محفل میں بیٹھتے ہیں وہاں اپنے جذبات کا اظہار اپنی زبان سے کردیتے ہیں. میں اس ہی طرح اپنی رائے کا اظہار "لکھ" کر اپنے الفاظ کے ذریعہ کرتا ہوں.
"اقراء" سے ہماری اسلامی تعلیم کا آغاز ہوا. قرآن کی نازل کردہ پہلی آیت کا پہلا لفظ "پڑھو" ہے اور اس کے فوراً بعد کی آیت میں قلم کا ذکر ہے. مجھے اس لئے لگتا ہے اس لکھنے کی بدولت میرا دین سے رشتہ زیادہ مضبوط ہوگا.
"لکھنا" میرا شوق تھا اور ہے اور رہے گا، چند افراد اور اداروں کی پزیرائی نے اس کو جِلا بخشی، مطالعہ نے اس میں بلوغت پیدا کی، حالات و واقعات نے اس میں جنون کی آمیزش بھی کی. لیکن یہ تو شروعات کا بھی ابتدائی مرحلہ ہے اور اس کی آخری حد شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے. لیکن میں اپنے اطراف میں وقوع پزیر ہونے والے لمحوں کو قلمبند ضرور کرنے کی کوشش اپنی حد تک کروں گا. اور اس کی تقسیم و ترویج کیلئے مجھے قارئین کا تعاون یقیناً درکار ہوگا. میرے جذبات کی "قدر" کرنے کا شکریہ! جزاک اللہ!

ابنِ سیّد

تیسرا رخ: جنگیں اور میڈیا کا کردار

جنگی سامان اور ذرائع سے بھی بڑھ کر جس چیز پر جنگیں انحصار کرتی ہیں وہ ہے معلومات کے ذرائع یا آج کے دور میں کہا جائے تو میڈیا. تمام بڑی بڑی جنگوں میں ایک بڑا کردار میڈیا کا بھی ہوتا ہے اس لئے تمام ممالک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا پر سینسرشپ لگائی جائے. یہی کام روس نے بھی کیا، امریکہ نے بھی کیا، اور تمام ممالک یہی طریقے اپناتے ہیں. کیا آج ہم میڈیا کی جنگ کے بارے میں دی گئی رپورٹنگ پر اعتبار کر سکتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی بھی خبر بڑی طاقتوں کی مرضی سے نہیں چل سکتی. ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ٹی وی پر بولنے والا اینکر پرسن اگر کسی دھماکے کی کوریج کر رہا ہے تو اس بات میں کس حد تک صداقت ہے کہ اس کی ذمہداری کس نے قبول کی. کیا سوات والی ویڈیو جس میں ایک عورت کو کوڑے مارے گئے تھے بعد میں جھوٹ نہیں نکلی؟ اور اگلے دن ایک کالمی تردید سے کیا کفارہ ادا ہوگیا؟
چلیں اگر آپ سمجھتے ہیں میں بار کو کسی اور رخ لیجا رہا ہوں تو مجھے یہ بتائیں سقوط ڈھاکہ کے وقت میڈیا نے جیت کے شادیانے بجاۓ مگر حقیقت میں ملک دولخت ہوگیا.
میرا یہ بلاگ میڈیا کیخلاف ہے حکومت کیخلاف نہیں، ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے اور اس کیلئے وہ ہر طرح کے اقدامات کرنے کا حق رکھتی ہے.
بات کا مقصد صرف ان افراد کی آنکھیں کھولنا ہے جو میڈیا کی ہر بات پر من و عن ایمان لے آتے ہیں اور جو چیز میڈیا میں نہیں وہ انکے نزدیک وقوع پزیر ہی نہیں ہوئی جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے.
ابنِ سیّد

Sunday, March 9, 2014

"مصحف" از نمرہ احمد Book Review :

کچھ تو تھا اس کتاب میں نے کھول کر پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی رہ گیا بالآخر ایک دن میں ختم کر ڈالی، ایک لڑکی کی کہانی ایک یتیم لڑکی، بالکل سنڈریلا جیسی، حالات سے گھبرائی ہوئی اس لڑکی کو ایک جگہ دوسری سیاہ فام لڑکی ایک کتاب کی جانب راغب کرتی ہے، وہ کتاب جس میں اس کی کہانی لکھی ہے، ماضی، حال، مستقبل، ایسی کتاب جسے گلے لگا کر وہ دنیا اپنے قدموں میں کرلے گی مگر اسے چھوڑ دے گی تو نقصان میں رہے گی اور وہ اس کتاب کو تھام لیتی ہے ایک باتیں کرتی کتاب، وہ حالات کا مقابلہ کرتی ہے اپنے رشتہ داروں کے ظلم کا مقابلہ اور پھر اسے اس کے بِچھڑے مل جاتے ہیں، مگر جب وہ اس کتاب کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو وہ نقصان اٹھاتی ہے، بالآخر قسمت اسے ایک بار پھر موقع دیتی ہے. یہ کتاب کیا تھی، کلام پاک قرآن مجید. جس سے جڑنے کے بعد اس نے سب کچھ پا لیا اور اس کو چھوڑ کر سب کچھ گنوا دیا.
علم، یقین، صبر، کشمکش کی داستان ... نمرہ احمد کے قلم کی روشنائی!

ابنِ سیّد

Saturday, March 8, 2014

تھر، بھوک پیاس افلاس، ورلڈ ریکارڈز اور سندھ فیسٹیول

ایک ماں اپنے دو بچوں کو مار دیتی ہے، شوہر گھر میں پیسے نہیں دیتا تھا اور بچے بھوک سے تڑپتے رہے، ماں کا بیان ہے کہ وہ اس تکلیف کو دیکھ نہ سکی اور اپنے بچوں کو بھوک سمیت تمام غموں سے نجات دلا دی. مجھے ذاتی طور سے اس طرز عمل سے بے حد اختلاف ہے کیوں کہ مایوسی کفر ہے. اسلام نے اسی وجہ سے مایوسی کو کفر کا درجہ دیا ہے، اللہ سے ہمیشہ اچھی امید رکھنی چاہیے.
ہم سب نے اس ہی دن سے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا اور کرنا بھی چاہیے. حضرت عمر (رض) کا قول ہے کہ "دجلہ کے کنارے کوئی کتّا بھی بھوکا مر گیا تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان سے پوچھ ہوگی". لیکن دوسری جانب ہم یہ واقعہ دیکھتے ہیں کہ سندھ فیسٹیول ہوتا رہا، اس پراجیکٹ پر جتنا خرچہ ہوا وہ بھی ظاہر ہے، اس ناچتے تھرکتے فیسٹیول میں کسی کی نظر اس جانب نہیں گئی کہ سو سے زائد بچے تھر میں بھوک سے بلک بلک کر موت کی آغوش میں جا سوئے.
حکومت اپنے فرض سے غافل رہی تو لوگوں کا فرض کیا صرف یہی رہ گیا کہ وہ حکومت پر تنقید کریں اور چپ ہوجائیں، مجرم صرف حکومت نہیں اس گھر کے پڑوسی بھی ہیں جس گھر میں دو بچے مار دیے گئے کیا اس گھر کے آس پاس جو لوگ بستے تھے کیا وہ پتھر کے بنے ہوئے احساس سے عاری بُت تھے. اتنا پتھر دل تو وہ پتھر بھی نہیں ہوتا اپنے سینے سے کونپل پھوٹنے دے کر زندگی کو جنم دیتا ہے. کیا یہ انسان اس سے بھی زیادہ گئے گزرے تھے. حدیث میں ہے "تم میں سے ہر شخص راعی ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا". کیا جواب ہمارے پاس ہے کہ کیوں وہ معصوم قتل کردیے گئے اور کسی کو خبر تک نہ ہوئی!
حکمرانوں کو بیشک تنقید کا نشانہ بنایا جائے لیکن یہ بھی دیکھا جائے کہ انہیں منتخب کر کے مسندِ اقتدار پر فائز کرنے والے ہم ہی لوگ ہیں.
اب بھی اس غلطی کو سدھارا جا سکتا ہے، پاکستان آرمی، الخدمت، جماعت الدعوہ اور دوسری فلاحی تنظیموں نے تھر کے صحراؤں میں غذا کی قلّت پوری کرنے کا کام شروع کردیا ہے. زیادہ سے زیادہ عطیات کے ذریعہ ہم اپنا فرض ادا کرسکتے ہیں. دوسری بات اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا ہر ممکن خیال رکھیں. اللہ ہمیں اس کی ہمت و توفیق دے.
ابنِ سیّد

Thursday, March 6, 2014

یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

بچپن میں ایک دفعہ کسی نے سوال کیا "تمہاری قومیت کیا ہے؟"، میں نے جواب میں کہا "مہاجر" اس نے کہا "یہ تو تم بتا رہے ہو کہ تم نے ہجرت کی ہے تم پہلے کسی اور علاقے کے باشندے تھے اب کہیں اور کے ہو لیکن تمہاری "قومیت" کیا ہے؟". میں نے حیرت سے کہا، "قومیت ہی تو بتائی ہے بھلے آدمی!" میری کم فہمی دیکھ کر وہ مزید سمجھانے لگا، کہنے لگا "جیسے میں راجپوت ہوں راجپوت ایک قوم ہے ، تمہاری قوم کیا ہے..."
بہرحال جب میں نے دیکھا کہ یہ کافی پیچیدہ مسئلہ ہے اس وقت سے مجھے قومیت، زبان، طبقات سے نفرت سی ہوگئی تھی، کوئی پوچھتا قومیت کیا ہے تو جواب دیتا "پاکستانی"! بعد میں اسلامی لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت واضح ہوئی تو اس کا اصل نقصان سمجھ آیا، اس سوال سے مزید نفرت بڑھی.
بعد ازاں مسلک کے حوالے سے بھی میں نے یہی رویہ اپنایا کوئی پوچھتا مسلک کیا ہے تو اسے ایک ہی جواب ملتا "مسلمان" ، مگر بعض افراد کا اس سلسلہ میں اصرار جاری رہتا کہ مسلک واضح کیا جائے لہذا بالغُ النّظر افراد کو بتا دیا کرتا اور فتنہ گیر کیلئے وہی جواب.
افسوس مجھے صرف اس بات کا ہوا کہ اپنے تئیں میں نے ایک بھلا کام کیا تھا، میرے خیال سے اگر سب ہی یہی رویہ رکھیں تو سارے اختلافات پرے رکھ کر سب ایک ہوجائیں لیکن نہ جانے کیوں اس رویہ کی بہت سے افراد نے تائید بھی نہیں کی اور نہ اس طرز عمل پر عمل پیرا ہوئے.
شاید اپنے منفرد مسلک، قومیت، تعصب کے سائے میں پناہ لیتے لوگ یہ نہیں جان رہے کہ وہ دراصل اپنے خول میں بند ہو رہے ہیں، اپنے گرد نظر نہ آنے والی ایسی دیواریں تعمیر کر رہے ہیں جو ان کی سوچ پر پہرے ڈال دیگی اور ان کی یہی سوچ ان کی نظر کو بہت محدود کر دے گی، اور دوسری جانب یہ رویہ انہیں آپس میں گروہ در گروہ تقسیم کرکے واپسی کے راستے بند نہیں تو مشکل ضرور بنا دیگا!
اللہ ہمیں ہر قسم کے تعصب سے بچائے اور اس کے نقصانات کا ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائے. جزاک اللہ

یوں تو سیّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
(اقبال)

ابنِ سیّد

پاکستان جیت گیا...

سورہ حجرات آیت گیارہ
اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا کے وہ ان سے بہتر ہوں.اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا کے وہ ان سے بہتر ہوں. (القرآن)


آفس سے واپسی پر فِضا میں رنگا رنگ آتش بازی نظر آئی.رنگ برنگ کے دھماکے دیکھ کر سمجھ میں آگیا یقیناً پاکستان جیت گیا ہوگا. راستے میں کئی جگہ نوجوان لڑکوں کے گروپ ٹریفک روک کر سڑک پر ڈانس کرتے اور بھنگڑے ڈالتے نظر آۓ. دل میں خیال آیا پاکستان تو جیت گیا لیکن نظریہ پاکستان ہار گیا.
"اتنا تو چلتا ہے!" اس جملے نے تو جیسے ہر حرام کو حلال کا درجہ دے دیا. کرکٹ میچ کی جیت پر ناچتے، تھرکتے، یونیورسٹی کالج سے میچ کی وجہ سے چھٹّی کرتے،میچ والے دن آفس میں بے دلی سے کام کرتے، اپنے ہر کیے گئے جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے یہی جملہ دہرا دینا کافی سمجھ لیتے ہیں ... "اتنا تو چلتا ہے!"
اور دوسری جانب سوشل میڈیا پر اخلاق سے گری ہوئی پوسٹ کرتے ہوئے شاید ایک بار بھی یہ نہیں سوچتے کہ کیا اس طرح کرنا درست ہے یا غلط. پاکستان انڈیا میچ میں جس بنگلہ دیشی تماشائیوں کو کل خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے. بنگلہ دیش بمقابلہ پاکستان میں آج اُسی قوم کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرنے لگے. کیا جواز ہے اس قدر تضحیک کے پہلو کا؟ کیا ہم بھول گئے کہ جنہیں ہم حقارت سے "او بنگالیوں ہمارے آفریدی نے کیسا دیا" کہہ رہے ہیں ان ہی بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے شہری بھی ہیں جو بیک وقت دونوں ملکوں کی محبت اپنے دل میں سمیٹے ہوئے ہیں لیکن شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ اُن افراد کے دل میں اس طرح کی باتیں کر کے ہم کس قدر نفرت بو رہے ہیں باوجود اس کے کہ دونوں ممالک مسلمان ممالک ہیں. میرا قلم تو یہ تاب یقیناً نہیں رکھتا کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے اس واحیات کمپین کے الفاظ یہاں لکھ سکے، یقیناً آپ مختلف صفحات پر جا کر بیشتر اس طرح کی پوسٹ گزشتہ دنوں سے دیکھ سکتے ہیں جن میں بنگلہ دیشی حضرات کے بارے میں نازیبا الفاظ، تضحیک اور اپنے بارے میں بے انتہا تکبّر جھلک رہا ہے.
بعض افراد کی طرف سے یہ بات بھی آئی کہ شاید آپ نے بنگلہ دیشی عوام کے تاثرات نہیں دیکھے کس قدر نفرت آمیز تھے. تو میرے دوستوں کسی کی زیادتی کی وجہ سے آپکو زیادتی کرنا جائز نہیں ہوجاتی.
بہرحال میرا آج کا پیغام یہی ہے کہ برائی کو برائی سمجھا جائے، اکثریت کے برائی میں ملوث ہونے سے برائی برائی ہی رہتی ہے، کسی کی تضحیک کرتے اور ہنسی اڑاتے ہوئے یہ ضرور سوچیں کہ اگر اللہ ہماری ہنسی اڑا دے تو پھر ہمیں کوئی نہیں بچا سکے گا اور اگر اس کا غضب بھڑکا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ ہماری فتوحات کو پلٹ دے. لہذا تکبّر کے بجاۓ اللہ کی خدمت میں شکرانے بجا لائے جائیں.
اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے. جزاک اللہ
ابنِ سیّد

Wednesday, March 5, 2014

کیا آئین اسلامی ہے؟

ہر جانب شور مچ گیا، لوگ بد حواس ہیں کہ یہ کیا بحث چھیڑ دی. اتنی مشکلوں سے تو مولویوں کو اس آئین پر چپ کرایا تھا. کہیں پھر سے کوئی تحریک نہ اٹھ کھڑی ہو اس لئے ہر جانب سے بیک وقت ایک ہی صدا اٹھی، "ارے آئین تو اسلامی ہے"، اتنے جیّد علماء کے ہاتھوں تشکیل پانے والا آئین کیا غیر اسلامی ہو سکتا ہے؟ اس آئین کو تو سب مانتے ہیں، اس آئین کے حوالے سے کوئی بات مذاکرات میں نہیں ہوگی، وغیرہ وغیرہ. اور پھر ایک بڑی میڈیا کمپین صرف اس معاملے سے جڑے لوگوں اور مضطرب عوام کو تھپک تھپک کر یقین دلانے کیلئے کہ فکر کی ضرورت نہیں آئین تو اسلامی ہے!
مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے، کیا آئین اسلامی ہے؟ جناب صرف اس لئے کہ یہ آئین "اسلامی" جمہوریہ پاکستان کا آئین ہے اس بنیاد پر اسے اسلامی نہیں کہا جا سکتا. کسی عمارت کی پیشانی پر کلمہ لکھ دینے سے یا کسی عمارت کو مسجد کہنے سے یا کسی عمارت کے باہر نماز کے اوقات لکھ دینے سے وہ عمارت مسجد نہیں بن جاتی بلکہ مسجد کہلوانے کیلئے ضروری ہے کہ اس عمارت کے اندر پانچ وقت نماز باجماعت کا نظام قائم ہو.
رہا یہ سوال کہ جیّد علماء کرام کے دستخط اس آئین کے مسوّدہ پر موجود ہیں تو یہ بات قابلِ ستائش ہے کہ ان علماء کرام کی کوششوں سے قوم ایک آئین پر متفق ہوئی اور اس آئین کے اندر ان علماء کی کوششوں سے بیشتر اسلامی قوانین کو شامل کیا گیا، قرارداد مقاصد اس آئین کا حصّہ بنی. یہ بہرحال اپنی جگہ ان بزرگوں کی ایک عظیم خدمت ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، لیکن کیا یہ کام مکمل ہے اور آئین مکمل اسلامی ہے؟ ہرگز نہیں! بلکہ اس کو مکمل اسلامی بنانے کی اب بھی ضرورت باقی ہے.
اب آتے ہیں آئین کے نفاذ کی جانب، اس آئین کو جسے کوئی نہ ماننے کا دعوی کرے تو تمام اینکرز اور پروگرامات کے شرکاء جھاگ بہاتے باتیں بنانے لگتے ہیں، کیا پاکستان کے ایک انچ پر بھی اس آئین کی عملی رٹ موجود ہے؟ بزورِ قوت اور جیٹ طیاروں کے زور پر قبائلی علاقوں میں آئین کے نفاذ کے متمنّی تو بہت ہیں لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں پارلیمنٹ میں ایک بڑی تعداد خود ان نمائندگان کی ہے جو آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ کو روند کر یہاں تک پہنچے ہیں، کئی ایک پر مقدمات قائم ہیں، شراب و شباب کی داستانیں بھی میڈیا پر آچکی ہیں، کرپشن کے اسکینڈل بھی زبان زدِعام ہیں. خود ہمارے قوم کے محافظ کئی بار بیباک انداز میں اس آئین کی نفی کرچکے ہیں. اگر دیکھا جائے تو سب سے بڑا مسئلہ اس آئین کا نفاذ نہ ہونا ہی ہے جو کہ اگر صحیح طور پر انصاف کے ساتھ کیا جائے تو اس ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل حل ہوجائیں.
ابنِ سیّد

Sunday, March 2, 2014

جیت کا جشن...؟

اندھیرا ہے، عشاء کی نماز ہو رہی ہے، امام مسجد کی تلاوت کی آواز ابھرتی ہے، اور اس تلاوت کے دوران گونجنے والی فائرنگ کی آواز، کبھی بھاری اسلحہ اور کبھی ہلکہ اسلحہ، اطراف سے شور کی آواز، خوشی اور حیرت کا ملا جلا سا شور، جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جائے، امام مسجد سجدہ ریز ہے اور یہ منظر جاری ہے.
یہ پڑھنے کے بعد شاید کچھ لوگ سمجھیں یہ کسی جہاد کے میدان کی منظر کشی ہے لیکن نہیں، یہ منظرکشی اس وقت کی ہے جب پاکستان کرکٹ کی بازی میں اپنے روایتی حریف بھارت کو شکست دے دیتا ہے.
شاید نہیں بلکہ یقیناً بہت سے قارئین آگے کے الفاظ پڑھ کر منہ بنائیں گے اور کہیں گے کہ اِن نقادوں کو بھی چین نہیں قوم کو دو پل خوشی کے میسر آجائیں تو انہیں اچھا نہیں لگتا. لیکن ایسا نہیں کہ میں خوش نہیں ہوں، ہاں میں بھی خوش ہوں کہ میرا ملک جیت گیا، میں خوش ہوں کہ پاکستان نے ایک روایتی حریف کو شکست دی اور ہر بار کی طرح ایک اور جیت اپنے نام کر لی. لیکن میں کیا کروں میں ایک غریب قوم کا غریب شخص ہوں، اور بحیثیت انسان محروموں کے مزار پر دھماچوکڑی مچانا میرے نزدیک صحیح نہیں.
چاروں طرف جیت کا جشن جاری ہے، ہوائی فائرنگ اور پٹاخوں کی آواز گونج رہی ہے. میں مسجد سے باہر نکلتا ہوں مگر ایک آواز میرے قدم جکڑے دیتی ہے یہ ایک باپ کی فریاد ہے ایک خوش لباس شخص ہے جو کچھ دیر قبل میرے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا مگر اب فریاد کر رہا ہے کہ کوئی مدد کرے کہ اس کے بچے کھانا کھا سکیں. یہ کہتا ہے کہ کوئی تو اللہ کا بندہ ہو جو میری غربت کا خیال کرے میرے گھر کی حالت دیکھ لے.
میں مسجد سے نکل جاتا ہوں چند قدم چلتا ہوں کہ راستہ میں ایک پکار پھر میرا راستہ روکے دیتی ہے یہ ایک بزرگ ہیں باریش اور سفید لباس میں ملبوس، ہاتھ میں لاٹھی تھامے میرا راستہ روک کر راشن دلانے کا سوال کرتے ہیں. میں وقت کی کمی کا بہانہ کرتا ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی مسئلہ نہیں میں انتظار کر لوں گا!
میں آگے بڑھ جاتا ہوں، دل میں احساس زور پکڑتا ہے کہ دو سوال رَد کر چکا ہوں، کیا جواب دوں گا اللہ کو. فائرنگ کی آوازیں مسلسل آرہی ہیں چند کلو میٹر دور سے آتش بازی دکھائی دے رہی ہے. کئی ہزار روپے فضا میں رنگوں کی صورت بلند ہوتے ہیں دھماکے کی آواز کے ساتھ اطراف کے ماحول کو رنگ میں نچھاور کرجاتے ہیں. گلیوں میں نوجوان خوش ہیں، چورنگی پر آتش بازی اور بھنگڑے ڈَل رہے ہیں. ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جیت کا جشن زور پکڑ رہا ہے.
میں گھر کا سودا سلف لیتا ہوں، گھر کی جانب چل پڑتا ہوں. بزرگ کی آواز پھر میرا راستہ روکتی ہے. میں نظرانداز کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہوں. کِن انکھیوں سے دیکھتا، اُن سے بچتا بچاتا گھر کی راہ لیتا ہوں جہاں ٹی وی پر ہوائی فائرنگ اور اس کے زخمیوں کی خبر چل رہی ہے. جیت کی خبر چل رہی ہے. نوجوانوں کے بھنگڑوں کی خبریں چل رہی ہیں. ہاں میں بھی خوش ہوں، میرا وطن ایک بار پھر جیت گیا، خوشیاں مناؤ! جیت کا جشن بڑھتا جاتا ہے، بزرگ کی آواز، فائرنگ کی آوازیں، بھنگڑوں کی آوازیں، ڈھولک کی تھاپ، سب گُڈمڈ ہوتے جاتے ہیں.

ابنِ سیّد

یہ سب مولویوں کا کیا دھرا ہے

ہمارے ملک میں ایک طبقہ مولویوں پر حد درجہ "مہربان" ہے. اِن کے ارد گرد کچھ بھی برا بھلا (بھلا کم اور زیادہ تر برا) ہو رہا ہو ان کے منہ سے فوراً یہی جملہ نکلے گا کہ یہ سب کچھ مولویوں کا کیا دھرا ہے.
سردی بڑھ جائے یا گرمی کا زور پڑے، جاڑا چڑھ جائے یا سرسام، کسی ملک پر حملہ ہو یا مسئلہ کشمیر انکے تجزیات کا ایک ہی نچوڑ ہوتا ہے "یہ سب مولویوں کا کیا دھرا ہے".
اپنے اس فوبیا میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ اب اگر بات کسی اور موضوع پر ہی ہو لیکن یہ اس میں کسی نہ کسی طرح گھسیڑ کر مولوی کو بیچ میں ضرور لائیں گے تاکہ یاد کیا ہوا اسکرپٹ دوبارہ دہرا سکیں.
اب چاہے امریکہ کے اگلے معرکہ کی خبر ہو یا لیاری میں گینگ وار ہو یا پھر ماڑی پور میں سنگم یہ اپنے پسندیدہ کردار کو ضرور چوک پر لا کر رسوا کریں گے اس کے بغیر انکا کھانا ہضم ہونا مشکل ہوجاتا ہے!
ہاں! یہ الگ بات ہے کہ اپنے بچے کی پیدائش پر کان میں اذان دینی ہو، نکاح پڑھانا ہو،اپنے پیارے کی نمازِجنازہ ہو یا قرآن خوانی، اس طرح کے ہر معاملات میں یہ طبقہ مولوی حضرات کا محتاج ہوتا ہیں.
اب فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے زیادہ قابلِ رحم ان دونوں میں سے کون سا طبقہ ہے.
سوچئے گا ضرور!

ابنِ سیّد
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments