Sunday, December 29, 2013

سود اور یوتھ ڈیویلپمنٹ لون اسکیم

جب کسی بری چیز کو تھوڑا تھوڑا کر کہ لایا جائے تو اکثر پتا نہیں لگتا یا جب پتا چلتا ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے. یہ بالکل اسی طرح ہے کہ پینے کے پانی میں تھوڑی تھوڑی کرکے ملاوٹ کی جائے تو معلوم نہ چلے گا لیکن اگر اچانک ہی ملاوٹ کردی جائے تو پینے والا قے کردے.
سود بھی ایسی ہی لعنت ہے. اسلام میں سود لینا دینا حرام ہے بلکہ اس سے متعلق تمام افعال کرنے کی ممانعت ہے. قرآن کے مطابق سود اللہ کیخلاف جنگ کے مترادف ہے جبکہ ایک حدیث کے مطابق سود کے کئی درجے ہیں جس میں سے سب سے کمتر کا گناہ اس گناہ کے برابر ہے کہ ایک شخص اپنی ماں سے بدفعلی کرے.
"اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، اسکو لکھنے والے،اور دونوں گواہان پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں. (ابنِ ماجہ حدیث 2277)"
لا حول ولا قوت الا باللہ
قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کے برائی کو برائی نہ سمجھا جائیگا. سب سے ذلت کا مقام وہ ہے جب برائی کھلے عام ہو اور کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہ ہو. برائی عام ہوجائے اور لوگ اس میں ملوث رہیں اور انہیں معلوم ہی نہ چلے کس دلدل میں گر کر دنیا و آخرت برباد کرلی.
اور پھر ہم دیکھتے ہیں ایک "اسلامی" ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم سود پر قرضے بانٹنے کی اسکیم لے کر آتا ہے، اللہ سے گویا اعلان جنگ کرتا ہے اس لعنت کے حقدار بننے کے خواہش مند افراد گویا اس فوج کا حصہ بن رہے ہیں جو نعوذباللہ اللہ سے جنگ کر رہی ہے.
اس اجتماعی گناہ کو کرنے کے بعد بھی اگر ہم اپنے حالات پر پریشان ہیں تو ہمیں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے. اللہ کی ناراضگی کا مکمل سامان کرنے کے بعد اگر ہم اپنے ملکی حالات پر فکرمند ہیں تو مجھے تعجّب نہیں. یہ تو اللہ کی بہت بڑی مہلت ہے کہ اللہ نے اس اجتماعی گناہ اور اللہ کیخلاف کھلا اعلان جنگ کرنے کے بعد بھی ابھی تک ہمیں کسی موذی عذاب سے بچایا ہوا ہے.
اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی رحمت ہم پر برسے اور ہم اپنی کھوئی ہوئی میراث دوبارہ حاصل کریں تو ہمیں سود کی اس لعنت سے دور ہونا پڑیگا، اجتماعی توبہ کی سخت ضرورت ہے اور اس برائی کو ملکی سطح پر روکنے کی ضرورت ہے جو نوجوان اس اسکیم کا حصہ بننے جارہے ہیں ان تک بھی یہ بات پہنچانی پڑیگی. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.

ابنِ سیّد

References:
1. Youth loan sceheme information : http://youth.pmo.gov.pk/?page_id=21
2. Hadith Reference from Ibn e Maaja

Friday, December 27, 2013

موروثی سیاست Say No To

سیاسی ٹاک شوز میں آج کل بات چل رہی ہے کہ پاکستانی سیاست کے نئے چہرے کیا ہونگے. یہ باتیں کر رہے ہیں بلاول زرداری کے بارے میں جو آج کل پاکستانی سیاست سیکھ رہا ہے (اردو بھی سیکھنا چاہئے). یہ بات کر رہے ہیں حمزہ شہباز اور مریم نواز کے بارے میں، فاطمہ بھٹو کے بارے میں کہ شاید یہ پاکستان میں سیاست کے اگلے چہرے ہوں. دوسری جناب پاکستان کے عوام ہمیشہ سیاست دانوں سے یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ موروثی سیاست ٹھیک نہیں اور باپ کے بعد بیٹا بیٹی اور بھائیوں کے بجاۓ دوسرے زیرک سیاسی کارکنان کو موقع دیا جانا چاہئے. دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں بعض اسلامی تنظیمیں انکا حال بھی ایسا ہی ہے جمعیت علماء اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن کے والد کے بعد وہ بنے، جمعیت علماء پاکستان میں مولانا نورانی کے بعد انکے بیٹے انس نورانی اور اویس نورانی سامنے آئے.
لیکن ایک جماعت ہے جو موروثی سیاست کی نا صرف زبانی بلکہ عملی طور پر بھی مخالفت کرتی ہے. جماعت اسلامی! جہاں مولانا مودودی کے بعد میاں طفیل (جن کا مودودی صاحب سے صرف اسلامی بھائی چارے کا رشتہ تھا)، بعد کے امراء میں قاضی حسین احمد اور اب منور حسن اور یقیناً یہ خالص جمہوری رویّہ ہی جماعت کا خاصہ ہیں. پاکستانی عوام کو بھی اب یہ شعور حاصل کرنا چاہئے کہ اب ان جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر ان جماعتوں کا ساتھ دیں جہاں ایک کارکن ترقی کرتا جماعت کا امیر بن جائے.
سیاسی جماعتوں کے علاوہ:
اور آخر میں چند غیر سیاسی لوگوں کے اقوال، واصف علی واصف صاحب کا کہنا ہے کہ گدّی نشینی کے موروثی تصوّر کو بھی تبدیل ہونا پڑیگا، کیوں کہ اگر نبوت و خلافت موروثی بنیاد پر نہیں تو گدّی نشینی کیسے ہوسکتی ہے.
یہ بھی کسی سے سنا ہے کہ اشرف المدارس کے الحاج حکیم اختر صاحب نے بھی وفات سے پہلے اپنے ایک "شاگرد" کو اپنی مسند کیلئے پسند کیا.

ابنِ سیّد

(میرے الفاظ حرفِ آخر نہیں اگر اس تحریر میں کوئی تصحیح یا اضافہ ہو سکے تو ضرور کیجئے. جزاک اللہ)

Thursday, December 26, 2013

جنَّت کے مسافر


میری لائبریری کی زینت بنی یہ کتاب " جنَّت کے مسافر"، کل پڑھنی شروع کی تو پڑھتا ہی چلا گیا. یہ کتاب میرے پاس میرے ناظم کے ذریعہ پہنچی جسے میں اب تک واپس نہیں کر پایا. سرورق ایک خوبصورت شعر لکھا ہے،
وہ دیکھ چمکتی رہ گزر
کرنا ہے تجھے ہمت سے سفر
فولاد کا دل رکھ سینے میں
آئیگا مزہ پھر جینے میں
ایک کے بعد ایک شہداء کے واقعات پڑھ کر معلوم ہوا کراچی میں کن نامساعد حالات میں جمعیت نے کام کیا اور ابھی تک یہ کام چل رہا ہے باطل کے دلوں پر اسی کی بدولت ہیبت طاری ہے اور یہ ہیبت یہ "دہشت" ان کے دلوں پر طاری رہیگی جب تک یہ باطل کی سرپرستی ترک نہیں کردیتے. حافظ محمد اسلم سے شروع ہوا یہ سلسلہ نہ جانے کب بند ہو، اللہ ان تمام لوگوں کو ہدایت دے جو ماؤں سے انکے جگر گوشہ چھین لیتے ہیں، بہت ہی سخت حساب دینا ہوگا انہیں شاید یہ کبھی سوچتے نہیں ...
کیا دوسری طلبہ تنظیمیں، کیا یونیورسٹی کی انتظامیہ، کیا پولیس کیا حکومت ہر طرف سے مخالفت کے تیر ہیں اور جمعیت کا سینہ، لیکن اس پر بھی جمعیت کا عزم اور حوصلہ قابل دید ہے. کوئی اور لوگ ہوتے تو کب کے مٹ چکے ہوتے لیکن یہ جمعیت ہے.
لوگ کہتے ہیں ہم کامیاب نہیں ہوئے مجھے نہیں معلوم دوسروں کیلئے کامیابی کا اصل مفہوم کیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لبرلز کی بے انتہا مخالفامہ کمپین کے بعد بھی جب نعرہ لگتا ہے "پاکستان کا مطلب کیا؟" تو جواب یہی آتا ہے "لا الہ الا اللہ" تو مجھے لگتا ہے ہمارا مقصد پورا ہوگیا!
شکیل الدین قریشی شہید کہا کرتے تھے، انسان مرے تو شہادت کی موت. ورنہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ جو یونہی صبح شام کرتے ختم ہوجائے.

ابنِ سیّد

چھبیس دسمبر 1981 یوم شہادت دانش غنی جامعہ کراچی

چھبیس دسمبر 1981 یوم شہادت ہے دانش غنی شہید کا جن کو جامعہ کراچی میں نام نہاد لبرلزم کے علمبرداروں نے شہید کیا. دسمبر 1981 اسی سال این ای ڈی میں بھی جمعیت یونین کے انتخابات 800 ووٹوں کی بھاری اکثریت سے جیتی. جامعہ کراچی میں بھی بالآخر جمعیت کے کامیاب ہونے کے بعد سب نے جان لیا کہ طلبہ نے لبرلزم اور قوم پرستی کو مسترد کردیا ہے اور یہی بات ان نام نہاد لبرلز کے ماتھے کا کلنک بنی جس کا بدلہ انہوں نے دانش غنی جیسے طلبہ رہنماؤں کو شہید کر کہ لیا. لیفٹسٹ یہ سمجھے تھے کہ کچھ لوگوں کو شہید کرکے شاید تحریک کو روکا جاسکتا ہے، آج جمعیت کراچی تا خیبر زندہ ہے لیکن ان لبرلز کی طلبہ جماعتوں کا نام بھی کوئی نہیں جانتا!! وقت جانتا ہے جب بھی ہم نے اللہ کی عدالت میں اپنا کیس رکھا اللہ نے ظالموں کو برے انجام سے دوچار کیا.

دانش تیرا قافلہ رکا نہیں تھما نہیں

Monday, December 23, 2013

جمعیت کے بعد

جب ایک شخص جمعیت میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد فارغ ہوتا ہے تو اسکی حالت اس بچے کی سی ہوتی ہے جو بھرے بازار میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو ایسے میں بعید نہیں کہ کوئی اسے اچک لے جائے.
ایک نئی اور بھرپور دنیا اس کے سامنے ہوتی ہے وہ غلط راستے کی جانب بھی جا سکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی اور تحریک کا آلہءکار بن جائے.
میرے لحاظ سے ایسی صورتحال میں بہتر طریقہ یہی ہے کہ کسی پاکیزہ اجتماعیت سے فوری طور پر منسلک ہوجایا جائےجیسے جماعت اسلامی اور اس ہی نظریہ کی بعض تنظیمیں، جماعت کے افراد سے رابطہ قائم کیا جائے اور اجتماعات اور دروسِ قرآن میں شرکت یقینی بنائی جائے. اگر یہ سب بھی نہ ہو سکے تو اسلامی لٹریچر سے اپنا تعلق مضبوط کیا جائے. جمعیت کے ترانے بھی تحریکی زندگی کی یادیں تازہ کرنے اور مقصد حیات کی یاد دہانی کیلئے اچھا ذریعہ ہیں.
جو رفقاء جماعت کا حصہ بن جائیں وہ بھی اس بات کو مدِّ نظر رکھیں کہ ان ساتھیوں کو نہ بھولیں جو مصروفیات کی وجہ سے اجتماعیت کو وقت نہیں دے پارہے، اس طرح ہم ایک دوسرے کو حوصلہ دلا کر دنیا آخرت کی کامیابی کا راستہ دکھا سکتے ہیں ورنہ بعید نہیں کہ وہ تحریکی ساتھی اس دنیا کی بھیڑ میں اور معاش کی تلاش میں گُم ہو کر رہ جائیں.
جمعیت سے فراغت کے بعد یہی دور مجھ پر بھی آیا اور اس دوران جو کچھ محسوس کیا اس کو تحریر کی صورت دے دی، کوئی غلطی ہو تو اصلاح فرمادیں. جزاک اللہ

ابنِ سیّد

Freemasonry ...

بظاہر فلاحی خدمات کا ڈھونگ کرنے والی تنظیم فری میسنری دراصل خفیہ صیہونی تنظیم ہے. پاکستان میں آزاد خیال اور لبرلز اس کے مشن کو آگے بڑھا رہے تھے. ذوالگقار علی بھٹو نے 1972 میں فری میسنری کو خلاف قانون قرار دیا اور اس پر پابندی لگائی.عوام کے اصرار پر 1983 میں ضیا الحق نے اس کا قلع قمع کیا اور مکمل پابندی لگائی دفاتر بند کئے. صدر صدام حسین نے فری میسنری کے فروغ کیلئے کام کرنے والوں کو سزائے موت دلائی. (فری میسنری - ایک جائزہ) از رضی الدین سیّد
ذاتی خیال ہیکہ دیکھا جائے تو ممعلوم ہوتا ہیکہ اوپر بتائے گئے تمام افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا. بھٹو صاحب اور صدام حسین پھانسی چڑھے اور ضیا الحق کا جہاز تباہ ہوا. بہت ممکن ہو یہ بھی اس ہی خفیہ ادارے کا کارنامہ ہو! ابنِ سیّد

اللہ اکبر

ایک رات اور گزر چکی ہے، مگر غم ابھی تک تازہ ہے، وہی بے چینی، وہی بے کلی، اپنے ایک مسلمان تحریکی ساتھی کے بچھڑ جانے کی اطلاع پر ابھی تک یقین کرنے کا دل نہیں کر رہا. سوچتا ہو دل کیوں بُجھا بُجھا سا ہے اس طرح کا غم اس دن بھی طاری ہوا تھا جب لال مسجد کے در و دیوار خون سے رنگین ہوئے تھے اور ایک خبر آئی تھی کہ غازی عبدالرشید ہلاک کردیے گئے. میرا دل اس دن بھی غم سے بوجھل ہوا تھا جب میں نے سنا کہ صدر مرسی کو قید کیا گیا. میں اپنے دل کو اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ کی شہادت کے دن بھی نہ قابو کر سکا، یہ دل اس دنیا کے ضوابط نہیں مانتا جس میں ہم رہ رہے ہیں. شیخ احمد یاسین کی شہادت بھی یاد ہے، ایک معذور شخص سے کیا لینا دینا انکا لیکن انکی اصل دشمنی نظریہ سے ہے. اور جب تک نظریہ زندہ رہیگا اس نظریہ کا حق ادا کرنے والے بھی پیدا ہوتے رہیں گے اور حق اور باطل کا یہ معرکہ بھی جاری رہیگا. دنیا سمجھتی ہے شاید چند جانوں کو ہلاک کر کے نظریہ دبایا جا سکتا ہے. ارے احمقوں! ہزاروں لاکھوں بھی شہید کردو مگر یہ نظریہ نہیں مرنے والا کیوں کہ یہ نظریہ قرآن سے لیا گیا ہے اور قرآن ہمیشہ قائم رہے گا اور یقیناً ہمارا نظریہ بھی. اور مرنے والی ہر لاش سے صرف اللہ اکبر کی صدا بلند ہوگی.
اَحد احد احد

اختلاف رائے

میری رائے یہ ہے آپکی رائے مجھ سے الگ ہو سکتی ہے. میں آپکی رائے کا احترام کرتا ہوں اور جواب میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میری رائے کا بھی اس ہی طرح احترام کریں جیسے کہ میں کرتا ہوں. آپ بھی ٹھیک ہوسکتے ہیں اور میری رائے بھی درست ہو سکتی ہے، یعنی ہم دونوں کی رائے بیک وقت ٹھیک ہو سکتی ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دونوں کی رائے غلط ہو اور کسی تیسرے کی رائے ٹھیک ہو. ہم سب کو چاہئے ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں.
لیکن مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہم اپنی رائے کو اپنی "انا" کا مسئلہ بنا لیں اور اسی پر ہی اصرار کریں اور باقی سب کو باطل قرار دے دیں جس کا نتیجہ اکثر یہ نکلتا ہے کہ دوسرا فرد بھی اس رویہ کی وجہ سے ہمارے جیسا رویہ اپنا لیتا ہے اس طرح دونوں افراد ایک دوسرے کی رائے سے منہ پھیر کر اپنی رائے پر مصر ہوجاتے ہیں اور سیکھنے سمجھنے کے تمام راستے بند کرلیتے ہیں.
دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس بارے میں مولانا مودودی کا نام لینا پسند کروں گا کہ کئی دفعہ علمی مسائل پر اختلاف کے جوابات دینے کے بعد اکثر انکا جملہ یہی ہوتا تھا کہ "جہاں تک میری سمجھ بوجھ ہے اس لحاظ سے میری رائے یہی ہے کوئی سمجھتا ہے کہ اسکی رائے زیادہ مضبوط ہے تو وہ اس پر عمل کرے".شاید ان کے اسی طرز عمل نے مجھے انکی تحاریر کا گرویدہ بنایا. بیشتر بالغ نظر علماء کے جواب یہی ہوتے ہیں. شاید میں بھول رہا ہوں ایک امام* کے بارے میں ہے کہ وہ ہر فتوی کے آخر میں "واللہاعلم" کہنا نہ بھولتے. ایک اور عالم* بیشتر مسائل کے جواب میں "لا ادری" (مجھے نہیں معلوم) کہنے میں نہ ہچکچاتے .مودودی صاحب جیسے اسی طرح کے الفاظ میں غامدی صاحب سے بھی کسی ٹی وی پروگرام میں سن چکا ہوں. دوسری جانب ایک اور صاحب جو آج کل ٹی وی میں کافی دکھائی دیتے ہیں (میں نام نہیں لوں گا) ایک مسئلہ کے جواب میں سائل سے کہتے ہیں کہ "جن سے آپ نے مسئلہ معلوم کیا ہو ہوسکتا ہے انکا علم اتنا نہ ہو!" بہرحال پہلے بیان کئے گئے جملے اور اس جملے کا فرق آپ دیکھ سکتے ہیں اختلاف رائے میں لہجہ بھی کافی فرق پیدا کرتا ہے.
تحریر لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ سابقہ دور میں بیشتر علماء ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود بھی ایک ساتھ مل بیٹھ کر تحقیق کیا کرتے تھے انکے آپس کے تعلقات اچھے ہوتے یہی اثر انکی رائے پر عمل کرنے والوں میں بھی تھا. لیکن آج بیشتر مسائل شاید اسی وجہ سے ہیں کہ ہم اپنی رائے دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اختلاف رائے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں. واللہ اعلم
یہ میری رائے تھی اگر کوئی ساتھی تصحیح یا اس میں اضافہ کرنا چاہیں تو ضرور مدد کریں. جزاک اللہ
*جن علماء کے نام ذہن سے نکل گئے اگر کوئی صاحب یاد دلا دیں تو شکریہ

Friday, December 20, 2013

یہ دوہرا معیار کیوں؟

طالبان بے بامیان کے بے جان مجسموں کو تباہ کیا تو لبرلز چلا اٹھے یہاں تک کہ اقوام متحدہ نے اقتصادی پابندیاں لگا دیں اور جیتے جاگتے لوگ بھوکے مرنے لگے لیکن شاید پتھر کہ بت ان زندہ انسانوں سے عظیم تھے.
دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے منع کرنے کے باوجود بنگلہ دیش میں عبدالقادر ملا کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں سزائے موت کے خلاف شور مچانے والے لبرلز اس کیخلاف بولنے کےبجاۓ کہتے ہیں کہ اچھا ہوا مجرم مجرم ہے. عقل ہے محو تماشہ ء لب بام ابھی. ... اقوام متحدہ ایک جانب پتھر کے بتوں (ثقافتی ورثہ) کو بچانے کیلئے طالبان حکومت پر پابندی لگاتی ہے لیکن ایک انسانی جان کو بچانے کیلئے صرف قرارداد سے کام چلاتی ہے.
قرآنی آیت کا مفہوم ہے کہ ''یہ کافر اس وقت تک تم سے مطمئن نہ ہونگے جب تک تم انکے دین میں شامل نہ ہوجاؤ". یہ دنیا کے روشنخیال اس وقت تک ہم سے نالاں رہیں گے جب تک اسلام ہماری زندگیوں کا حصہ رہیگا لیکن جس دن کوئی اسلامی احکامات کو اتار پھینکے گا تو وہ ان کا منظور نظر بن جائیگا. اب یہ ہم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسلام کا ساتھ دینا ہے اور اللہ کو راضی کرنا ہے یا پھر دنیا کی خوشنودی کی خاطر اللہ کی ناراضگی مول لینی ہے.

ابنِ سیّد

Thursday, December 12, 2013

عبدالقادر مولاہ آپ امر ہوگئے

From : http://www.bangladeshfirst.com/
بارہ دسمبر کی سرد رات اور ایک چینل پر چلنے والا ٹِکر، بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مولاہ کو پھانسی دے دی گئی. حسینہ واجد نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ظلم اور پرو-انڈیا ہونے کی روایت قائم کی اور دوسری جانب عبدالقادر نے انبیاء کی سنّت کو زندہ کرتے ہوئے موت کو گلے لگا لیا لیکن باطل کی خدائی کو قبول نہ کیا. انہوں نے دنیاوی عدالتوں سے رہم کی اپیل نہ مانگی وہ چاہتے تو اپیل کر سکتے تھا لیکن اپنے قائد مودودی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے اس اپیل کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنا مقدمہ یقیناً اللہ کے یہاں پیش کیا ہوگا بے شک اللہ ہی منصف اعلی ہے.
یہ وہی عبدالقادر مولاہ ہے کہ جن کے پاس ایک دن پہلے انکا وکیل جاتا ہے اور ملاقات کے بعد حیرت سے کہتا ہے کہ مجھے تو لگا ہی نہیں کہ اس شخص کو رات پھانسی ہونے والی ہے. وہی اطمینان بھرا لہجہ وہی چمکتا چہرہ وہی مسکراہٹ لئے مجھ سے کیس کی تفصیلات پر بات کرتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو.
آخری اطلاعات تک عوامی ردِّ عمل کی خبریں ہیں، عوام نے احتجاج کیا، اقوام متحدہ نے اپیل کی، ترکی کے صدر اس بربریت پر چلا اٹھے لیکن بنگلہ حکومت خونِ ناحق اپنے سر لینے پر تل گئی. لیکن مجھے ان سے شکایت نہیں مجھے تو ان پاکستانیوں سے شکایت ہے جو حکومتی سطح پر ایک احتجاج بھی نہ ریکارڈ کروا سکے، اگر پاکستان اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتا یا سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دیتا تو بہت کچھ ہو سکتا تھا لیکن ایسا نہ ہو سکا، جو جماعت اسلامی پاکستان کو البدر بنانے پر اور پاکستان بچانے کی کوشش پر آج تک طعنے دے رہے ہیں انکی نظر میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی کیا اہمیت.
سوچتا ہو اگر اس دور میں جماعت نے سقوطِ ڈھاکہ کی مخالفت کے بجاۓ حمایت کی ہوتی تو یہ سب نہ ہوتا، اگر بنگلہ جماعت کے لیڈران ملک سے فرار ہوگئے ہوتے تو یہ سب نہ ہوتا، لیکن ملک بچانے کی کوشش بھی کی! اپنی زمین اور لوگوں کو چھوڑ کے بھی نہیں گئے، اسلام سے وفادار رہے اور اسکا صلہ شہادت کی صورت میں ملا، یقیناً عبدالقادر مولاہ کے چہرہ پر وہی نور ہوگا، وہی مسکراہٹ ہوگی، وہی اطمینان ہوگا، شہادت کا مزہ دنیا کیا جانے یہ تو اللہ والوں، اسلام کے شیدائیوں، محمد کے غلاموں اور اقبال کے شاہینوں کا تحفہءِخاص ہے. ایک اور سولہ دسمبر آیا چاہتا ہے... کون کہتا ہے تاریخ خود کو نہیں دہراتی!
عبدالقادر مولاہ تم امر ہوگئے! !!


ابنِ سیّد

Wednesday, December 11, 2013

ایسٹ انڈیا کمپنی کے "شہداء"

جب انگریز بر صغیر میں آئے تو ایسٹ انڈیا نام کی کمپنی کھولی بعد ازاں یہیں قابض ہوگئے، فوج بھی بنائی اور اس میں مقامی بھی بھرتی ہوئے، اس میں مسلمان بھی تھے ہندو بھی ہونگے. ان فوجوں کو لڑنے دوسرے ممالک بھی بھیجاجاتا ہوگا. مسلمان فوجی یقیناً نعرہ تکبیر ہی لگا کر لڑتا ہوگا اور جب برطانیہ کی یہ فوج جس کا ایک مسلمان سپاہی کسی ایسے ملک پر حملہ آور ہوتا ہوگا جس میں مسلمان رہتے ہیں جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی نے سرحدی علاقوں کو اپنی مملکت میں شامل کرنے کیلئے حملہ کیا تو وہاں انکا غیّور قبائل نے مقابلہ کیا. اب صورتحال کچھ یوں ہوگی ادھر سے مارنے والا بھی خود کو مسلمان کہتا ہوگا اور دوسری جانب اپنے علاقہ کا دفاع کرنے والا بھی مسلمانیت کا دعویدار ہوگا. ایک انگریزوں کا وفادار ہوگا اور دوسرا اپنے علاقہ کو بچا رہا ہوگا اپنے گھر کو بیوی بچوں کو ہجرت کروا رہا ہوگا. اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ فوجی جوان جو ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوگا کسی طرف سے آئی گولی کا نشانہ بن جاتا ہوگا اور یقیناً وہ شہید کہلاتا ہوگا، حکومت اسے اعزاز سے نوازتی ہوگی. تاج برطانیہ کا وفادار لیکن اسکی نماز جنازہ بھی ادا کی جاتی ہوگی... شاید اس وقت علماء کہتے ہونگے کہ تاج برطانیہ کی وفاداری میں اور انگریزوں کی نوکری کرنے فوج میں نہ جاؤ اور اپنے ہی بھائیوں کو نہ مارو. شاید اس بات پر بھی اختلاف ہوا ہو کہ آیا انگریزوں کے شانہ بشانہ لڑتی یہ اتحادی افواج حق پر ہیں یا نہیں، اس میں شامل مسلمان فوجی شہید کہلائے جائیں گے کہ نہیں، شاید ایسا ہوا ہو، یہ پتا لگانے کیلئے تاریخ کے اوراخ پلٹنے ہونگے ...


ابنِ سیّد

Tuesday, December 10, 2013

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟ on Saach.tv

This blog can also be seen here http://www.saach.tv/2013/11/30/ghaltiyan-latadad-lakin-hal-keya-hai/

Image from here: http://www.saach.tv/wp-content/uploads/2013/11/blog173-580x1361.jpg


یو ٹرن

یو ٹرن لینا خطرناک ہو سکتا ہے خاص طور پر اس وقت جب رفتار ہلکی نہ کی جائے، اس کے نتیجہ میں سواری میں سوار افراد کو نا صرف جھٹکا لگتا ہے بلکہ بعض اوقات گاڑی الٹ بھی سکتی ہے اور جانوں کا زیاں ہو سکتا ہے.
یہی کچھ ہم نے کیا، ہم نہایت تیز رفتار سے ایک جانب چلے جارہے تھے کہ یکایک یو ٹرن لے لیا گیا اور تو اور اسکے نتیجہ میں پیش آنے والے جھٹکے کو سمبھالا دینے کیلئے نہ رفتار ہلکی کی بلکہ اور تیز کردی. جس کی وجہ سے گاڑی میں بیٹھے افراد کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا. ہم اسلام پسندی کی گاڑی میں سوار تھے یہ رفتار گو کہ کچھ زیادہ نہیں لیکن مناسب ضرور تھی، ہم افغانستان میں کشمیر میں جہاد میں مصروف تھے، ہم کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے کہ یکایک امریکہ کی ایک کال پر یوٹرن لے لیا گیا. تمام جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی. اسلام کا نام لینا اور اسلام پسند ہونا ایک جرم بنا دیا گیا. یہی نہیں اس یوٹرن لینے کے باوجود گاڑی الٹی سمت چلائی جانے لگی وہ ایسے کہ میڈیا کا منہ کھول دیا گیا اور فحاشی کا سیلاب اُمڈ آیا. اسلامی شعائر کا کھلے عام مذاق بنایا گیا، حدود اللہ کو پامال کیا گیا، حدود آرڈیننس ختم ہوا اور بے راہ روی عام ہوئی.
اور پھر اس یوٹرن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر اکائی میں کئی گروہ بن گئے ہماری حکومت امریکہ کی وفادار بنی ہماری فوج دو حصوں میں بٹی ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں گروہ بنے اور لوگوں نے امریکہ کے ساتھ جنگ کو چُنا اور.ہماری فوج نے انکو روکا اس طرح ہماری فوج اور ان افراد میں لڑائی ٹھن گئی. پورا ملک جنگ کی لپیٹ میں آگیا، ایک کہ بعد ایک آپریشن ہوتا رہا کبھی راہ نجات تو کبھی راہِ فرار لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے گئے. شاید غلطیوں کو سدھارا جاتا تو ملک ان حالات سے نکل سکتا تھا لیکن ان غلطیوں کو سدھارنے کے بجاۓ ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی. بیماری کے خاتمہ کے بجاۓ بیمار کو ختم کرنے کی ناقص پالیسی اختیار کی گئی.
اب بھی اس بھنور سے نکلا جا سکتا ہے لیکن گاڑی کو صحیح ٹریک (صراط مستقیم) پر لانا ضروری ہے ورنہ نام بھی نہ ہوگا داستانوں میں.

ابنِ سیّد

Monday, December 9, 2013

سمجھ تو آپ گئے ہونگے

(نیچے لکھی گئی بیشتر باتیں بے بنیاد ہیں اپنی ذمہ داری پر پڑھیں)
نہایت ہی خوشی کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آخر کار پاکستانی قوم نے پتہ لگا لیا کہ انکا اصل دشمن کون "نہیں" ہے یہ نہ ہی انڈیا ہے جس کہ بارے میں ہم چہ مگوئیاں کرتے ہیں اور اسکو پاکستان کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور نہ ہی امریکہ ہے جو پاکستان کے سرحدی علاقوں پر ڈرون گراتا ہے. یہ تو اندازہ ہم نہیں لگا سکے کہ اصل دشمن کون ہے البتہ یہ اندازہ لگا لیا کہ کون "نہیں ہے" لہذا ان دونوں سے اعلانِ برأت کرنے کے بعد باجماعت اپنے دشمن کو تلاش کیا جارہا ہے امید ہے مل ہی جائیگا، بچ کے کہاں جائیگا ..
بہرحال خوشی کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے "دوست ملک" امریکہ کا دورہ کر کے اس سے اپنی شرائط منوا لیں. ایک شرط تو یہ کہ امریکہ پاکستان پر جب بھی ڈرون حملہ کرے پہلے سے بتا دے تاکہ ہم میڈیا کو بتا دیں کہ حملے کے بعد کن دہشتگردوں کی ہلاکت کی خبر جاری کرنی ہے تاکہ وہ اس کو اپنی بریکنگ نیوز بنا سکیں اس طرح پروگرام کی ریٹنگ بڑھے گی اور ملک میں مزید زر مبادلہ آسکےگا.
مزید خوشخبریاں یہ کہ پاکستان نے اب بغیر پائلٹ سے اڑنے والے جہاز بنا لئے ہیں اور پاک فضائیہ کے حوالے کردیے ہیں جس کے بعد امید کی جاتی ہیکہ پی اے ایف میوزیم میں آنے والے بچوں کو دیکھنے کے لئے ایک اور چیز مل جائیگی. اس کے علاوہ اس کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ فضائیہ کے افراد اس کو اڑا کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں. ہے نہ مزیدار...
جیسے کہ آپ کو معلوم ہوگا کہ امریکہ کو ہم دوست مانتے ہیں اور اسی دوستی کا حق ادا کرنے کیلئے انکل سیم اور انکے رشتہ دار دن رات لگاتار ٹِک ٹِک ٹِک ٹِک پاکستان کی تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں اب آپکو تو پتا ہے ایک بنی ہوئی جگہ کی رینوویشن کتنا مشکل کام ہے اور اس کو آسان بنانے کیلئے ڈرون کا استعمال کیا جاتا ہے یعنی ایک طرف سے ڈرون کی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے مکان گرایا جائے اور دوسری طرف یو ایس ایڈ کے تعاون سے تعمیر کیا جائے. نہ جانے بعض لوگ اس کو ظلمِ عظیم ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں. مگر ادرک کیا جانے بندر کا مزہ اور یعنی الٹا کوتوال چور کو ڈانٹے اور آ بھینس مجھے مار، سمجھ تو آپ گئے ہونگے.
فرانس کی ملکہ نے تو روٹی کی جگہ کیک کھانے کی ہدایت کی تھی جبکہ ہمارے سیاست دان اس طرح کے مشورہ دینے میں نہایت سخی واقف ہوئے ہیں لہذا ہو دوسرے دن کوئی ٹرین میں آیت الکرسی پڑھ کے بیٹھنے کا مشورہ دیتا ہے تو کوئی ٹماٹر کی جگہ لیموں استعمال کا مشورہ، اس بات کا تخمینہ بھی لگوایا گیا ہے کہ اگر ان کے مشورہ اسی رفتار سے ملتے رہے تو جلد یہ زبیدہ آپا کاریکارڈ توڑ ڈالیں گے. آپکو تو معلوم ہے عوام کتنے رحم دل ہیں لہذا انہوں نے سیاست دانوں کو چپ رہنے کا عندیہ دے دیا ہے تاکہ زبیدہ آپا کا گھر ہنستا بستا رہے اور روزگار چلتا رہے.
اور آخر میں وہی گھِسا پٹا شعر عرض ہے:
 
اندازِ بیاں گرچہ مِرا شوخ نہیں ہے
شاید کہ تِرے دل میں اتر جائے مری بات

ابنِ سیّد

Because IJT stood against injustice!



Those who stand for the truth have to face consequences, this is the reason Jamiat is paying price of being firm against an unjust decision which was made by university administration as they cancelled allotment of the whole one boy’s hostel. Emptying a hostel means minimum of 5000 students will be homeless, and this was done by using force without the will of students. At this point Jamiat stand for justice, they are recognized as a student power and representatives of students of Punjab university, on behalf of the students they recorded their protest for not emptying the hostel, but against their will the police was called in the campus and the hostel was evacuated from boys by using force. If this is democracy then every student individual must have the right to protest and Jamiat was protesting in the campus on which again police was used to sabotage this peaceful protest, the resultant of which we are seeing, chaos.
By the analysis of the above situation we can clearly state that university administration is at fault. Students are the future of nation, using force on students can not be tolerated, in a democratic environment one must solve issues through talks and negotiations, but when strength is used then the first person to use it is guilty, and in this case the university administration is!
The role of media was surprising, seems like they were waiting for some news against Jamiat, so this time they break the news without any confirmation, the police did not identified who torched the bus, but the same media who use every violent news related to Karachi with the title of "unidentified armed men" this time they are publishing a fake story blaming Jamiat, without any proof without any evidence.
Every person can have differences on the concepts and ideology of the organization, but even those who are against Jamiat can endorse them for their trustworthy behavior and their pure character, even the strongest opponent can not blame Jamiat for corruption & vulgarity. But this time the media have shown a different story "wine"... do you ever drunk a wine with your party badge in it? This certainly prove how foolishly the story was cultivated, I wonder they did not get the idea of putting a Jamiat sticker on the bottle. Remember what they say, “Naqal Kay Liye Bhi Aqal Ki Zarurat Hoti Hai.”
And don’t forget vice chancellor and teachers who are been sued for doing bad with the students, the administration (vice chancellor) is creating this issue to hide his negligence in performing his duty but media is not showing this side, which shows true face of media. Media is not neutral but playing a part of a rival party.
In a talk show, the people from Jamaat Islami and Muslim League defended the character of Islami Jamiat Talba, because every person know this world is mortal, we have to answer on day in front of Allah, all lies will be exposed there. So be careful while giving your honest opinion about Islami Jamiat Talba.

Wednesday, December 4, 2013

دین میں کوئی جبر نہیں



بعض لوگوں کا مذہبی بحثوں میں پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ڈنڈے کے زور پر لوگوں کو اسلام کی جانب نہیں مائل کر سکتے. یہ غلط ہے وہ غلط ہے اور درپردہ اس کے بعد اس کی آڑ میں اسلامی احکامات کو لتاڑنا شروع کردیتے ہیں.
اسلام کبھی بھی اس چیز کا حمایتی نہیں رہا کہ ایک اسلامی حکومت بھی چلتی رہے اور اس کے نیچے لوگ گناہ میں مبتلا زندگیاں گزاریں. اسلام کا تصوّر حکومت وہی سسٹم ہے جہاں تمام افراد اسلامی احکامات و قوانین کی پابندی کر کے زندگی گزاریں یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ گناہ کے کاروبار بھی آباد رہیں اور اس کو آزاد خیالی کا نام دیا جائے بہرحال لیبل لگانے سے ہیئت نہیں بدل جاتی. جہاں پر شریعت کے منافی کام ہوگا اس کی روک تھام کے لئے مناسب اقدام ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے.
اور اسی سے بات آگے بڑھا کر لوگ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو اس آیت کے مخالف قرار دے کر باطل قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں.
سب جانتے ہیں کوئی بھی معاشرہ قوانین کے بغیر نہیں چلتا اور ان قوانین کی پابندی کرانے کیلئے ایک فورس ضروری ہے. اب چاہے وہ پولیس ہو یا فوج یا ایف سی وغیرہ کام انکا قوانین کو لاگو کرانا ہے اور اگر کوئی ان قوانین کے مخالف جائے تو یقیناً اس پر الزام عائد ہوگا اور عدالت میں ثابت ہونے پر اس کو سزا دی جائیگی. یقیناً یہاں تک کسی کا اختلاف نہیں.
یہی چیز تو طالبان نے کی اقتدار انکے پاس تھا لہذا اسلامی اور قرآنی قوانین کے حساب سے جو اس کے خلاف جاتا تو اس کو اس ہی حساب سے جرم ثابت ہونے پر سزا دی جاتی. اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک ملک میں جرائم کی روک تھام اگر پولیس کرے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن جب یہی کام افغانستان میں منصبِ اقتدار پر فائز طالبان کریں تو اسے "لا اکراہ فی الدین" کے منافی گردانا جان کر اس پر جبر اور ظلم کا لیبل چسپا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.
ابنِ سیّد
(درج بالا مضمون ایک اسلامی احکام کے بارے میں ہے، اگر اس میں کوئی بات غلط لکھ دی گئی ہے تو ضرور تصحیح فرمادیں. جزاک اللہ)

Thursday, November 28, 2013

کیوں کا جواب ...

بچپن کی بات ہے جمعہ کے دن چھٹی ہوتی تھی لہذا کھانے پر جمعہ کے اخبار پر بات چیت ہوجایا کرتی تھی. بہرحال موضوع کی جانب آتے ہیں آپکو یاد ہوگا جنگ اخبار میں دینی سوال جواب کا حصہ ہوتا تھا جس کے جواب یوسف لدھیانوی صاحب دیا کرتے تھے (انکے بعد مولانا سعید احمد جلالپوری دینے لگے، شاید اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے). ایک دفعہ اخبار میں کچھ اس طرح کا سوال آیا کہ، "اگر ایک شخص کو دنیا میں اسکے جرم کی سزا دی جاتی ہے تو اسکو آخرت میں سزا کیوں ملے گی اور اگر آخرت میں ملے گی تو عذاب قبر جیسا ایڈوانس کیوں ..." اِس طرح کا سوال اور الفاظ کا چناؤ پڑھ کر افسوس بھی ہوا اور دل میں خیال آیا کہ کیا کوئی مسلمان ایسا ہو سکتا ہے جو اللہ کا حکم سن نے کے بعد بھی "کیوں؟" پوچھنے کی جسارت کرے. اس دن ہمارے اس ڈسکشن کا حاصل یہی رہا تھا کہ شاید کچھ غیر مسلم افراد اس طرح کے سوالات بھیجتے ہوں کیونکہ اس وقت تک میں لبرلز، سیکیولرز، اور روشنخیال جیسی مخلوق سے آشنا نہیں تھا... ہمیں کیا خبر تھی کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا کہ "سوال" تو کیا کچھ لوگ اس طرح کے ہونگے جو خود کو مسلمان کہتے ہوئے بھی اسلام کے احکامات اور اللہ کے فرمان پر نعوذباللہ انگلی اٹھائیں گے، اس پر تنقید کرینگے اور ان احکامات سے بغاوت کرینگے. مسلم کا تو مطلب ہے جُھک جانے والا یعنی وہ جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کردے. اور جب اللہ کا حکم آجائے تو پھر ہر سوال کا جواب یہی ہونا چاہئے "کیوں کہ اللہ کا حکم ہے!"
واللہ اعلم

ابنِ سیّد

Wednesday, November 27, 2013

این ای ڈی یونیورسٹی کا ایک واقعہ


این ای ڈی یونیورسٹی کے دور میں جمعیت کے پلیٹ فارم سے ہم داخلہ ٹیسٹ والے دن طلبہ کی رہنمائی کیلئے کیمپ لگایا کرتے تھے. اس دوران تقریباً تمام طلبہ تنظیمیں بھی اسی مقصد کی خاطر کیمپ لگا کر طلبہ کی رہنمائی میں مصروف ہوتے تھے.دس بارہ تنظیموں کے کیمپ اور انکے کئی سو کارکن، ایک میلے کا سا سماع ہوا کرتا تھا.
ایک دفعہ ہر سال کی طرح ٹیسٹ والے دن جمعیت نے کیمپ لگائے. میں انہی کیمپوں میں سے ایک کیمپ پڑ کھڑا تھا کہ ایک طالب علم میرے پاس آیا اور اپنا موبائل جو کہ کافی قیمتی تھا میری جانب بڑھا کر بولا کہ میرے ابو سے بات کرلیں. اس شخص کو میں زندگی میں پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا. بہرحال اس کے والد سے بات کی تو کہنے لگے کہ یہ موبائل اپنے پاس رکھیں (ٹیسٹ میں آپ موبائل اندر نہیں لیجا سکتے) میں آپ سے آ کر لے لونگا. انہوں نے نام پوچھ کر فون بند کردیا. وہ لڑکا اپنا موبائل مجھے امانتاً چھوڑ کر ٹیسٹ دینے چلا گیا جس کے کچھ دیر بعد اس کے والد میرا پوچھتے ہوئے آۓ اور موبائل وصول کیا کچھ دیر کیمپ میں بیٹھے اور چلے گئے.
انکے جانے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ جمعیت اور جمعیت کے کارکنان پر ایک عام فرد کتنا بھروسہ کرتا ہے.جہاں اتنی ساری تنظیمیں اپنے کیمپ لگا کے بیٹھیں تھیں اس شخص نے اپنی قیمتی شے کو رکھونے کیلئے جمعیت کو ہی اتنا امانت کا پاسدار سمجھا.

ابنِ سیّد
 

Monday, November 25, 2013

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟

غلطیاں لاتعداد، مگر حل کیا ہے؟

مجھے اچھی طرح یاد ہے پہلا ڈرون حملہ ہوا تھا، یہ باجوڑ کا ایک مدرسہ تھا. اس میں تقریباً اسّی طلباء تھے جو موقع پر شہید ہوئے جبکہ زخمیوں کی ایک بڑی تعداد ہوئی. اس موقع پر بعض افراد نے یہ کہہ کر غلط بیانی کی کہ اس علاقہ میں آبادی نہیں لیکن باجوڑ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا کہ وہاں آبادی ہے اور اس آبادی کے قریب ہی مدرسہ ہے جس کو نشانہ بنایا گیا اور بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا ہے. اس وقت مذہبی اور محب وطن جماعتوں نے "گو امریکہ گو" اور "جو امریکہ کا یار ہے غدار ہے" کا نعرہ بلند کیا جس کا ابتداء میں چند افراد و جماعتوں نے استہزاء اڑایا مگر آج یہ نعرہ ہماری قومی بقا کا نعرہ بن گیا ہے. جب ہمارے ملک کے ایک بڑے شہر سے ایک امریکی شہری نے چند افراد کا قتل کیا لیکن افسوس اس قاتل کو راہِ فرار دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انکی ہمت بڑھی اور انہوں نے ہمارے ملک میں کھلے عام کاروائیاں شروع کردیں. ایبٹ آباد کا واقعہ ہوا جس پر ہمارے حکمرانوں نے کہا "گریٹ وکٹری"، مگر بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ "گریٹ ڈیفیٹ" تھی. اس کے بعد ملک میں کھلے عام غیر ملکی ایجنٹ گھومتے رہے مگر ہم ان سے سوال نہ کر سکے. اسلام آباد کی سڑک پر تین چار امریکی ایک جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں پکڑے جاتے ہیں مگر سفارت خانے کی ایک کال پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے. ممکن ہے وہی امریکی کہیں حملہ یا دھماکہ کردیں اور بھاگ جائیں تو ہم اس کیس کو طالبان سے منسوب کردیتے ہیں تاکہ فائل بھی دب جائے اور کیس بھی انجام کو پہنچ جائے، ہم ممکنات کی نفی نہیں کرسکتے.
ہم اس ملک میں ایک وسیع و عریض امریکی ایمبیسی کی تعمیر کی اجازت دیتے ہیں جس میں سات سو افراد کی رہائش کا انتظام ہے. ہمارے اہلکار اس میں پَر بھی نہیں مار سکتے، ہم انہیں پورا موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں میں پھریں گھومتے رہیں، گاؤں دیہات قبائلی علاقہ جات و  مضافات میں مٹرگشت کریں ان علاقوں میں جائیں جہاں ہم نہیں جا سکتے ان افراد سے بات کریں جن سے ہم نہیں مل سکتے اور پھر ہم حیران ہیں کہ ان دہشتگردوں کو "بیرونی مدد" کہاں سے مل رہی ہے. شَک ہم انڈیا پر کرتے ہیں جبکہ اس بیرونی مدد کو ہم نے پناہ دارلحکومت میں غیرملکی ایمبیسیوں میں دے رکھی ہے.
ہم نے صلیبی جنگ میں صلیب کا ساتھ دیا، مسلمان ہوتے ہوئے صلیبیوں کو رسد پہنچائی، افغانستان میں ان کے ہاتھ مضبوط کئے، اور اپنے افغان بھائیوں کے قتلِ عام میں امریکی اور نیٹو کی افواج کا ہاتھ بٹایا. اس کے باوجود ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ افغان عوام ہم پر بھروسہ کرینگے. ہم نے یہ نہ سوچا کہ لاکھوں افغانی اس ملک میں مہاجرانہ زندگی بسر کر رہے ہیں ہمارے امریکیوں کو مدد کرنے پر وہ بھی بگڑ سکتے ہیں، افغانستان میں اگر انکا رشتہ دار مارا جائے تو انتقامی جذبے میں آکر وہ بھی ملوث ہوسکتے ہیں ہم نے اس بات کو سمجھے بغیر جنگ میں چھلانگ ماری اب اندر باہر ہر طرف سے دشمن مار رہا ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون مار رہا ہے اور ہم حیران ہیں کہ ہم پر حملے کیوں ہوتے ہیں اور ماننے کو تیار نہیں کہ یہ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور ان غلط پالیسیوں کو سدھارنے کے بجاۓ نئی پالیسی بنانے کو مسئلہ کا حل سمجھ رہے ہیں، نتیجہ صفر!
ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی دنیا کی بڑی فوج ہونے کے باوجود بھی، ہم بحیثیتِ قوم کسی سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرسکتے. اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا جس کا مفہوم ہے کہ ایک وقت آئیگا کہ غیرمسلم اقوام تم پر اس طرح ٹوٹ پڑیںگی جیسے بھوکا دسترخوان پر جبکہ اس وقت افرادی طاقت میں بھی سمندری جھاگ کی مانند ہونگے. شاید وہ وقت آچکا ہے.
وجہ کیا ہے؟ ہم نے اسلام کا سبق بھلا دیا ہم نے ملتِ اسلامیہ کے فلسفہ کو پسِ پردہ ڈال دیا، ہر کام بنا سوچے کیا نتیجہ یہ کہ اللہ نے ہم پر بحیثیت قوم ذِلت مقرر کردی. اب حل صرف یہ ہے کہ اپنی شناخت اپنی بنیاد اسلام کی جانب پلٹنا ہوگا. ہمیں اسلام کے مطابق فیصلے کرنے پڑینگے ہمیں اپنے مسائل کا حل اسلام میں تلاش کرنا پڑیگا جب ہی ممکن ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا اور ہمیں عروج کی جانب لیجائیگا.

ابنِ سیّد

میری بنائی ہوئی ویبسائٹ - Error 404

 میری بنائی ہوئی ویبسائٹ
Erorr-404
 
یہ لکھتے ہوئے مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے لیکن شاید یہ پڑھ کر کسی کی اصلاح ہوجائے لہذا اس نیت سے بیان کئے دے رہا ہوں ...
میں نے تقریباً گیارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر کا استعمال شروع کیا. تیرہ سال کی عمر میں انٹرنیٹ کا استعمال، ویب ڈیزائننگ بھی اسی دور میں شروع کی، اس ہی درمیانی عرصہ کی بات ہے میں نے ایک ویب سائٹ بنائی، اس وقت اتنا کچھ دین کا علم نہیں تھا لہذا اس ویبسائٹ میں گانوں، گلوکاروں کے حوالے سے بھی کافی لِنک اور مواد رکھا ہوا تھا.
زندگی رواں ہوگئی اور ہم پڑھائی وغیرہ میں مصروف، کچھ دن پہلے عرصہ بعد دوبارہ اس ویبسائٹ کا خیال آیا. چیک کرنے پر پتا چلا کہ Geocities جو کہ یاھو! کا پراجیکٹ تھا وہ بند ہوچکا ہے. ایک پرائیوٹ ویبسائٹ Oocities نے وہ تمام پیجس اپنے پاس آرکائیو کرلئے ہیں.
Oocities.com/owaisjal کھول کے دیکھا تو میری بنائی ہوئی ویبسائٹ میرے سامنے تھی کافی دیر تک دیکھتا رہا، تمام پیج دیکھے، عجیب و غریب نقش و نگاریاں اور جاوا اسکرپٹس کی کارستانیاں دیکھتا رہا. پھر گانوں کے لِنکس پر نظر پڑی، کچھ دیر سوچا اور پھر Oocities کے مین پیج پر گیا سامنے ہی لکھا تھا کہ ہم آپکی پرائیوسی کی قدر کرتے ہیں اگر آپ اپنی ویبسائٹ بند کرنا چاہیں تو رابطہ کریں. میں نے ای میل میں لکھا کہ میں یہ ویبسائٹ ختم کرنا چاہتا ہوں، جواب آیا کہ کوئی مخصوص پیج یا تصویر یا لِنک یا پھر مکمل ویبسائٹ؟ مکمل ویب سائٹ، میرا جواب تھا!  کچھ دن بعد کسی ششمیتا کی ای میل موصول ہوئی جس میں لکھا تھا کہ وہ ویبسائٹ نہ صرف ویب بلکہ ان کہ ریکارڈ، آرکائیو سے بھی ہٹا دی گئی ہے.
اس مرتبہ لِنک کھول کر دیکھا تو Error 404 سامنے آگیا. دل کو تسلی سی ہوئی، اپنی تخلیق کی گئی چیز کو ختم کرنا جیسا فیصلہ کرنا مشکل کام ہے لیکن جو خالقِ کائنات کی مرضی ہو اسکے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہی صحیح ہے.
شاید اس سے ان لوگوں کو کچھ احساس ہو جو انٹرنیٹ پر اچھی بری ہر طرح کی چیز کچھ سوچے بغیر ڈال دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اس کے اثرات کیا ہونگے. اگر آپ کی بھی ایسی ویبسائٹ یا ویب پیج موجود ہے تو اسکا بھی کچھ بندوبست کریں. اللہ ہم سب کو ہدایت دے.
ابنِ سیّد

Friday, November 22, 2013

اور اب صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈرون حملہ

امریکہ نے اپنے ڈرون حملوں کا احاطہ بڑھا کر اب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقہ ھنگو میں ایک مدرسے کو نشانہ بنایا. اس حملے میں آٹھ افراد ہلاک اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے. یہ بات نہ جانے کس طرح میڈیا نے پتا لگا لی کہ ان میں سے شہید ہونے والوں کا جرم انکا حقانی نیٹورک سے تعلق ٹھہرا، لیکن پھر شہید اور زخمی ہونے والے طلباء کا جرم کیا تھا. اس ڈرون حملے کی مزمت تو مذہبی حلقوں اور چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو آئی لیکن حکومتی ادارے اور قومی دفاع کے ادارے اب تک خاموش ہیں. یہ وہی دفاعی ادارے ہیں جو چند ہفتے پہلے ایک سیاسی جماعت کے قائد کے بیان پر پریس کانفرنس کر رہے تھے. لیکن اس حملے نے سب کے منہ پر تالے لگا دئے. سب امریکہ کے خوف کا شکار ہیں.
ایک جانب ہم اپنے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکہ کے جان سوز حملے ہمارے لوگوں کو شہید کر رہے ہیں. اقبال نے تو کہا تھا مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، مسلمان کو ہتھیار کی نہیں ہمت و مردانگی کی ضرورت ہوتی ہے اور افغان غریب عوام نے امریکہ کے دانت کھٹے کر کہ یہ ثابت بھی کر دیا لیکن ہم شاید ان سی.بھی گئے گزرے نکلے. کاش کہ لوگ جانتے  کہ جنگیں ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتیں.....
ابنِ سیّد

Wednesday, November 20, 2013

سب سے پہلے اسلام

سب سے پہلے اسلام

افسوس ہوتا ہے جب میں کسی کے منہ سے سنتا ہوں کہ "پہلے پاکستان کی فکر کرو". کیا یہ اسلامی فلسفہ ہے ؟ بالکل نہیں! اسلام تو کہتا ہے کہ امتِ مسلمہ ایک جسم ایک جسدِ واحد کی مانند ہے کہ ایک حصہ میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے، یہ مفہوم ِحدیث ہے.
اگر یہی بات صحیح مان لی جائے تو پھر مسئلہ کشمیر اور اسرائیل کو نہ تسلیم کرنے پر پاکستان کے موقف کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
کیا ہم نے کبھی سوچا اگر محمد بن قاسم مظلوم مسلمانوں کی آواز پر عرب کے صحراؤں سے سندھ نہ آتا تو شاید یہاں اسلام اس طرح پنپ نہ پاتا. وہ بھی سوچ سکتا تھا کہ اس کے پاس بھی کافی مسائل ہیں، ریاست کی ذمہ داریاں  ہیں اسکے باوجود اس نے جہاد کیا اور سندھ کے مسلمانوں کو ظلم سے آزادی دلائی.
اگر ہم مصر میں ہونے والے خون خرابے پر چپ رہیں، شام کے معاملہ پر آواز نہ اٹھائیں، بنگلہ دیش اور برما کے مسلمانوں کی آواز دنیا تک نہ پہنچائیں یہ تو مسلمانیت تو کیا انسانیت کے بھی اصولوں کے خلاف ہے.
اور اگر ہم ان مسائل سے نظریں چرا لیں تو کیا پاکستان کے مسائل یک دم حل ہوجائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً اسکا تجربہ کرنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں! یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے تصوّر کو برحق سمجھنے والے دل میں درد رکھنے والے افراد ساری دنیا میں کہیں بھی اگر مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو اسکی آواز میں آواز ملاتے ہیں اور انکی آواز کو ہر پلیٹ فارم پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، یہ نہ صرف اس امّت کے نظریہ کیلئے فائدہ مند ہے بلکہ ان مظلوموں کیلئے امید کی کرن ہے. شاید یہ عمل انکے زخم مندمل نہ کر سکیں لیکن مرحم کا کام ضرور دینگے!
ابنِ سیّد

Sunday, November 17, 2013

اسلامی نظام تعلیم کیوں ضروری ہے؟

ہمارے ایک نہایت ہی مشفق استاد نوجوان بھی ہیں اور معلومات کے چیمپئن بھی. کلاس میں ہر موضوع پر کھل کر بات ہوتی ہے اور تقریباً تمام طلباء ہی اظہارِ خیال اور اس بحث میں حصہ ضرور لیتے ہیں اور یہی اس کلاس کی خوبی ہے. بہرحال، کچھ دن پہلے اس ہی بحث و مباحثہ کے دوران نہ جانے کس بات پر استاد محترم نے کہا کہ میں اس کے خلاف ہوں کہ جبراً تعلیمی اداروں میں اسلامیات پڑھائی جائے. میرا اور ایک اور لڑکے کا موقف تھا کہ اول تو ایسا ہوتا نہیں جو طلباء اسلامیات نہیں پڑھنا چاہتے انکے لئے Ethics یا Ethical Studies کے نام سے مضمون موجود ہے. دوسرے اس تیزی سے بدلتی دنیا میں لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کیلئے کچھ الگ انتظام کریں لہذا کچھ نہ ہونے سے یہ اسکول میں حاصل کردہ اسلامیات کی تعلیم  بہتر ہے. مگر سر کا کہنا تھا کہ اسلامیات نہیں بلکہ دینیات یا Ethical Studies  کو فروغ دینا چاہئے.
میں نے سر کی رائے جاننے کیلئے پوچھا کہ کیا مدارس میں کمپیوٹر (ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی علوم) کی تعلیم دی جانی چاہئے جس پر انہوں نے کا بالکل کیوں کہ یہ وقت کی ضرورت ہے. اس پر میں نے کہا کہ سر اگر آپ کہتے ہیں کہ مدارس میں کمپیوٹر کی تعلیم جبراً ہونی چاہئے تو میں کہتا ہوں کہ انجینئرنگ میڈیکل یونیورسٹیز میں اسلامیات کی تعلیم لازمی ہونی چاہئے (کمپیوٹر اگر وقت کی ضرورت ہے تو اسلامیات دنیا، معاشرے اور ایک فرد کی آخرت کی کامیابی کی ضرورت ہے).
شاید ہمارے اردگرد جو معاشرے کی تنزلی ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس ہی وجہ سے ہے کہ ہم اچھے ڈاکٹر انجینئر اور مینیجر تو پیدا کر رہے ہیں لیکن اچھے انسان و مسلمان نہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ انجینئر غیرقانونی تعمیرات میں ملوث ہوجاتے ہیں. یہی ڈاکٹر انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں اور یہی پروفیشنلز کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا اسلامی نظام تعلیم مرتّب کریں جن سے گزر کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والا ہر شخص معاشرے کے اخلاقی عروج کا باعث بنے. پھر شاید ہمیں آڈٹس اور فراڈ کنٹرول کیلئے لاکھوں خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے.

جماعت اسلامی نے اس ملک کو کیا دیا؟

پچھلے کچھ دنوں سے بعض لوگوں کی جانب سے سوال آیا کہ جماعت اسلامی نے اس ملک کیلئے کیا خدمات انجام دیں. اگر یہ لوگ اپنے اطراف میں نگاہ دوڑائیں اور اپنے ذہن کو تعاصب سے پاک کریں تو انہیں کئی مثالیں مل جائیں گی. لیکن اس کیلئے تعصب کی پٹی آنکھوں سے ہٹانا شرط ہے.
جماعت اسلامی ہی کی وجہ سے اس ملک کو اسلامی تشخص ملا. قرارداد مقاصد جس نے پاکستان کو ایک اسلامی شناخت دی اس کا سہرہ جماعت اسلامی کے سر ہی جاتا ہے. شاید کوئی اور جماعت تمام سیاسی قوتوں کو ایک ایشو پر اکھٹا نہ کر سکتی، لیکن جماعت کی محب وطن قیادت نے اس کام کو بھی سر انجام دیا.
ملک کی ضروریات اور وسائل کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے جماعت اسلامی نے ملک کے طول و عرض میں الخدمت کے نام سے فلاحی کاموں کا بیڑا اٹھایا اور اس پلیٹ فارم سے غریبوں کی مالی مدد کی، یتیموں کے لئے یتیم خانوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اسکا نظام چلایا. قدرتی آفات میں یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو  قوم کی مدد میں ہر اول دستہ تشکیل دیتی ہے. بیواؤں کی کفالت سے لیکر غریب گھرانوں کی لڑکیوں کی شادی کیلئے مالی مدد فراہم کرنا.
کراچی سے لے کر خیبر تک مستحق طلبا کیلئے مدارس اور اسکول کے مضبوط ادارے قائم کرنا تاکہ ہر بچہ تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بنا کر اس ملک کے کام آسکے.
اکھتّر کی جنگ میں جب مشرقی پاکستان میں انڈیا کی ملی بھگت سے انارکی برپا ہوئی تو اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنان فوج کی مدد کیلئے 'البدر' کے نام سے ہر اول دستہ بنے، جن علاقوں میں فوج نہیں جاسکی ان علاقوں میں کاروائیاں کرکے انڈیا کی بالادستی کو کم کیا اور پاک فوج کیلئے راہ ہموار کی اور اس کوشش میں جمعیت اور جماعت کے دس ہزار سے زیادہ کارکنان نے ملک و ملت اور اسلام کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا. آج بھی اس ہی پاداش میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں کو سزائے موت سنائیں جارہی ہیں.
افغان جھاد میں بھی اس ہی روایت کو برقرار رکھا اور اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے شانہ بشانہ روس سے جنگ کی، اور اسکو گرم پانیوں تک نہ آنے دیا، یہ سب کچھ اسلام اور پاکستان کے دفاع کی خاطر کیا.
اس ملک میں اگر افراد کو کتاب سے شغف ہے تو اس تعلق کو برقرار رکھنے میں بھی جماعت اسلامی کا ایک بڑا کردار ہے، جماعت اسلامی پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت ہے اور تعلیم کا فروغ جماعت کی اساس میں سے ہے.
جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے دامن پر جعلی ڈگری کا تمغہ سجائے ہوئے ہیں اس اندھیر نگری میں جماعت کے امیدواران روشنی کی کرن بن کر ابھرے. الیکشن میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت رہی جس کا ہر امیدوار اعلی تعلیم یافتہ تھا.
جماعت اسلامی نے سابقہ حکومت میں صوبہ سرحد کی حکومت کا نظام بہتر طور پر چلا کر اپنی اہلیت ثابت کی.
جماعت اسلامی کے نامزد کردہ سٹی ناظم جناب نعمت اللہ خان کی کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنانے کی کوشش کسی سے چھپی نہیں. سڑکوں اور فلائی اوور کی تعمیر، ہر علاقے میں پارک کی مخصوص جگہوں پر قیام، واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کا قیام اور اس کے علاوہ کئی سو بڑے پراجیکٹس کا افتتاح اور بجٹ پاس کیا جو آنے والی سٹی گورنمنٹ نے اپنے حصہ میں لکھوالیا لیکن بہرحال شہر کراچی کی تعمیر مقصد تھی جس کو جماعت نے بااحسن وخوبی انجام کیا.
قادیانی مسئلہ ایک بہت بڑا اور پیچیدہ مسئلہ تھا جس کو جمعیت نے اٹھایا اور جماعت نے اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے ذریعہ حل کروایا، اس موقع پر ملک کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد بھی جماعت اسلامی نے ہی کیا.
ملکی سلامتی کے معاملات پر جماعت نے بڑے بڑے اتحاد قائم کئے.اکھتّر کے آئین پر تمام سیاسی قوتوں کو جماعت نے متحد کیا. جو قوم مختلف انداز میں بٹی ہوئی تھی اس قوم کو اور بیشتر اسلامی قوتوں کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر متحد کیا. ملک کے دفاع کی خاطر دفاع پاکستان کونسل کے نام سے اکھٹا کیا.
اس ملک کے عوام لاکھ دوسری جماعتوں کو ووٹ دیں لیکن جب ملک کے لئے حساس معاملات میں فیصلے کرنے کا وقت آتا ہے یا جس وقت کسی ملکی معاملے میں عوام کو کسی ایک راۓ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے تو رہنمائی کیلئے سب کی نگاہیں جماعت اسلامی کی قیادت کی جانب ہی اٹھتیں ہیں کیوں کہ جماعت اسلامی ووٹوں پر اور نہ ہی سیٹوں پر بلکہ اس ملک کی عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتی ہے.
جہاں اس ملک میں کرپشن کے قصے عام ہیں ان سب میں جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس کا دامن ہر طرح کی عصبیت اور کرپشن سے پاک ہے، جماعت کے مخالفین بھی اسکا اعتراف کرتے ہیں. ..
عربی کا ایک مشہور محاورہ ہے
"والحق ماشھدت بہ الاعدآء" یعنی "سچائی تو وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے".
یہ تو چند ملکی خدمات ہیں، جماعت اسلامی ملک و ملت کی خدمت پر یقین رکھنے والی جماعت ہے، شاید جماعت کی خدمات ایک کالم میں پوری نہ لکھ سکوں لیکن  اگر اس قدر تفصیل کے بعد بھی کوئی سوال کرے کہ "یہ تو ٹھیک ہے لیکن جماعت نے ملک کو کیا دیا؟" تو ایسے افراد کے سوال کا جواب ہے: "السلام علیکم و رحمتہ اللہ"

Wednesday, November 13, 2013

کڑوا سچ بولنے پر معذرت


کڑوا سچ بولنے پر معذرت؟
(سیّد اویس مختار) 

منور حسن جواب دیں، انہیں سچ بولنے کا حق کس نے دیا اور وہ بھی اتنا بڑا اور کھرا سچ جس نے امریکہ، اسٹیبلیشمنٹ اور امریکہ نواز تمام اتّحادیوں کو ہِلا کہ رکھ دیا اور نہ صرف جھنجوڑا بلکہ انہیں حقِ نمک ادا کرنے کا فریضہ یاد دلا دیا. منور حسن جواب دیں کہ کس نے انہیں حق دیا کہ وہ یہ معاملہ اس وقت اٹھائیں جب سب اتحادی امریکہ کی گود میں بیٹھے خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کے یک دم کس نے انکی کرسیوں کو ہلا دیا، جب سب جماعتیں اور حکومتی اتحادی امریکہ کی ہاں میں ہاں کو ہی کامیابی سمجھ رہے تھے تو اس وقت کس نے کہا تھا کہ کلمہِ حق کہیں!
آئی ایس پی آر کہتی ہے جواب دیں، منور حسن جواب دیں کہ انہیں کس نے حق دیا کہ کسی کو شہادت کا سرٹیفیکیٹ دیں جبکہ یہ حق تو صرف آئی ایس پی آر، میڈیا اور چند سیاسی جماعتوں کہ پاس ہے. یہ حق تو صرف اس جیو چینل کہ پاس ہے جو کچھ دن پہلے ٹِکر چلاتا ہے کہ "گلشن کے علاقے میں فائرنگ ایک فرد ہلاک اور ذوالجناح شہید"، یہ حق تو ان "سچائی کہ علمبرداروں" کہ پاس ہے کہ اپنی مرضی سے شہادت کا لیبل چسپا کریں.
یہ حق تو شاید صرف ان لسانی سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو ہر ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے کارکن کو شہادت کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیتے ہیں. یہ حق تو صرف حکومتی نمائندوں کہ پاس ہے جو اسلامی قانون کو کالا قانون کہتے ہیں اور جب کوئی جذباتی انسان اس توہین کا ان سے بدلہ لیتا ہے تو جواب میں انکو شہادت کا رتبہ مل جاتا ہے.
اس طرح کے بیان سے تو پاک آرمی کے.مقصد "وار آن ٹیرر" کو ٹھیس پہنچے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکہ امداد بند کردے. پھر یہ کرنل جنرل کے بڑے بڑے پروٹوکول کا خرچ کہاں سے پورا ہوگا...
یہ سوال نہ اٹھتا تو نہ جانے کب تک امریکہ کی مسلط کی گئی جنگ کو ہم نہ جانے کب تک اپنی جنگ سمجھ کر لڑتے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس جنگ میں اور نیٹو سپلائی کا راستہ فراہم کرنے پر اور امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں ہم اپنے افغان مسلمان بھائیوں کے قتل عام میں مدد فراہم کر رہے ہیں. اور اس جنگ میں کام آنے والے سپاہیوں کا مستقبل کیا ہے یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے کیوں کہ دونوں جانب مرنے والا مسلمان ہے اور کلمہ گو ہے دونوں جانب صدا نعرہ تکبیر کی ہی بلند ہوتی یے. اس معاملہ کو اب کسی نہ کسی کروٹ بٹھانا ہوگا، ہماری فوج اور عوام کو کھل کر امریکی امداد اور پالیسیوں کا بائیکاٹ کرنا پڑیگا.
اور معافی تو بالکل مانگنی چاہئے کہ ہمیں معاف کرو ہم اب تک اس فوج کو اسلام کا سپاہی سمجھتے رہے جبکہ صد افسوس کہ حقیقت میں یہ امریکہ کے سپاہی نکلے.

ناکامی کی وجوہات

ناکامی کی وجوہات
(سیّد اویس مختار) 

ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ میں زندگی میں کیا کروں کونسی فیلڈ جوائن کروں اور کونسا پیشہ اپناؤں، جس پر ان صاحب نے الٹا سوال کیا کہ تم خود سے یہ سوال کرو کہ تم کیا بننا چاہتے ہو. یہ تمہاری زندگی ہے اور اس کے فیصلے اگر کوئی اور کریگا تو اس سے تم متفق نہ ہوگے، اور آگے جا کر ناکامی تمہارا مقدر بنے گی.
جب میں نے اس تھیوری کو بڑے تناظر میں دیکھا تو درست پایا. کسی بھی علاقے کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کو ہی کرنا چاہیے، اگر پاکستان کے حالات سے نمٹنے کے فیصلے واشنگٹن میں ہونگے تو یقیناً وہ ناکام ہونگے. اسی طرح اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسیاں پاکستان کے اقتصادی ماہرین کے بجاۓ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک والے جنیوا میں بیٹھ کر بنائیں تو یقیناً وہ پالیسیاں ناقابل عمل ثابت ہونگی.
اگر پاکستان کے اسٹریٹیجگ اور ملٹری کے فیصلہ اگر پینٹاگون کریگا تو غلط ہی کریگا اور ظاہر سی بات ہے جو ان اداروں سے جا کر مشورے لیتا ہوگا اس کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے.
صرف یہی نہیں، اگر بلوچستان اور بلوچوں کے مستقبل کے فیصلے اگر اسلام آباد کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہونگے تو وہ ناقابل عمل ہونگے اور انکا حقیقت پر مبنی ہونا مشکل ہے.
فاٹا کے مسائل کا حل وہاں کے رہائشی قبائلی رہنما ہی بہتر طور پر نکال سکتے ہیں اگر کوئی دانشور امپورٹ کیا جائیگا تو وہی حال ہوتا ہے جو ہم آج دیکھ رہے ہیں.
یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کے بجاۓ بیرونی طاقتوں سے مدد مانگی اور ان پر انحصار کرنا چاہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری ہر پالیسی جو ہم نے بیرونی طاقتوں سے مستعار لی تھی اس کو وہاں کے رہنے والوں نے مسترد کردیا اور جب ہم نے وہ پالیسیاں بزورِ قوت.نافظ کرنا چاہیں تو نہ صرف یہ کہ لوگوں نے اس کو قبول نہ کیق بلکہ بعض مواقع پر مسلّح جدوجہد شروع کردی، جس کو روکنے کیلئے مزید مسلّح طاقت کا استعمال کیا گیا نتیجہ یہ کہ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی".
آگج پاکستان جس دلدل میں دھنس چکا ہے اس کا واحد حل یہی ہے کہ عوام کو ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے ،ہم اپنے فیصلے خود کریں ورنہ نتیجہ ہم بھگت چکے ہیں مزید نقصان سے بچا جاسکے گا.

Sunday, November 3, 2013

بزدل آمر حکمران

دیکھا جائے تو مشرف تاریخ کا سب سے بزدل حکمران نکلا. ایسا حکمران جس نے ایک امریکی کال پر ملک کا سودا کیا. چلیں پرانی باتیں چھوڑیں ابھی ہی دیکھ لیں، جب اس پر ایک کے بعد ایک کیس کھلے اور اس کو موت کا چہرہ دکھا تو بھیگی بلّی بن کر کہنے لگا، "والدہ بیمار ہیں علاج کرانے باہر جانے کی اجازت دی جائے".
ایک بہادر شخص اپنے نظریات سے پیچھے نہیں ہٹتا مگر اس کا حال عجیب ہے، یہاں اس کے حامیان لال مسجد سانحہ کو درست اقدام کہہ رہے ہیں اور دوسری جانب یہ عدالت میں کہہ رہا ہے کہ میں نے آرڈر نہیں دیا. کچھ دن اور رکیں "رحم کی اپیلیں" بھی کرے گا!
کہاں گئی آل پاکستان مسلم لیگ؟ سنا ہے اس کے ارکان آج کل متحدہ میں شمولیت اختیار کررہے ہیں.
جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں بڑی عجیب بات لکھی تھی، کہتا ہے "جو شخص غلط کام کرے لوگ اس کے باپ کو برا کہتے ہیں" آج لوگ پرویز مشرف کے والد "مشرف" کو برا کہہ رہے ہیں جبکہ اسکا اصلی نام "پرویز" ہے...
(ابنِ سیّد)

عالمی کرپشن آرگینائیزیشن

کرپشن تمام دنیا میں ہورہی ہے لیکن پاکستان میں اس کا کافی اسکوپ ہے. کسی اور چیز میں نہ سہی کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی پیداوار میں خودکفیل  ہو چکا ہے بلکہ اب تو ایکسپورٹ بھی کر رہے ہیں جیسے شارٹ کٹ عزیز وغیرہ.
پاکستان کی بات چھوڑیں اس کھیل میں تو باقی ممالک بھی شامل ہیں ساری دنیا سے "کالا دھن" سوئیس اکاؤنٹس میں آتا ہے، اور یہ رقم کوئی معمولی نہیں ہوتی، معمولی ہوتی تو یہاں نہ ہوتی(ظاہر ہے!) بظاہر دیکھا جائے تو ان کی کوئی خاص انڈسٹری نہیں ان کی تمام معیشیت اس ہی پیسہ پر چل رہی ہے جو تمام دنیا کے کرپٹ اشخاص وہاں جمع کراتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس پیسہ کی اور ان کے مالکوں کی معلومات کی جان سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں.
ورلڈ بنک کا مرکزی دفتر بھی پڑوس میں واقع ہے مگر شاید وہ دنیا کی معیشیت سمبھالنے میں اس قدر مصروف ہیں کہ سوئیس اکاؤنٹ میں جھانکنے کا وقت نہیں ملتا، یا پھر وہ بھی اس کھیل میں شامل ہیں.
(ابنِ سیّد)

Thursday, October 31, 2013

"The Leadership of Muhammad Morsi" - By Syed Owais Mukhtar

Abtract: This article covers reviews and focuses the certain aspects of leadership of the president of Egypt Mr. Muhammad Morsi, the member of the most influential organization Ikhwan ul Muslimoon (Muslim Brotherhood), who ran election campaign from the platform of Freedom and Justice Party, and got successful.

Muhammad Morsi the newly elected president of Egypt, previously the president of Freedom and Justice Party since April 30, 2011, participated in the elections from the platform of Freedom and Justice Party and elected as the president of Egypt. He joined the office of president on June 30, 2012. He was a loyal member of the Muslim Brotherhood (Al Ikhwan ul Muslimoon) the biggest and the most influential Islamic movement in the Arab world. He is associated with Muslim Brotherhood since his youth.
Ikhwan ul Muslimoon, the Muslim Brotherhood is the most influential Islamist group in the Arab world, it is perhaps the biggest movement of its kind, the members of Brotherhood are well known for their honesty, loyalty and discipline. Although certain criticism on their movement and way of working they are still growing in numbers and are widely supported by the local population. The movement is based on Quran and Sunnah and mostly the activist of Brotherhood is tend to follow the vision, but in this entire scenario we can not neglect the presence, motivation and leadership of the leaders of Brotherhood without which they might it seemed impossible to reach the destination. Similarly Muhammad Moris worked a lot in order to develop himself, along with the God-gifted skills he got.
Introduction: Muhammad Morsi was born in the village of Edwa in the northern Egypt Al Sharqia Governorate (translated as Eastern Governorate) in August 20, 1951. He got his early education in Edwa [2] which is a small undeveloped area, then for higher education he came to Cairo where he completed his graduation in 1974 and post-graduation degree in 1978 [3] from the Cairo University. He then traveled to United States and got his Ph.D. degree from the University of Southern California in 1982 [4]. He joined California State University as an Assistant Professor in 1982 up to 1985. After 1985 he came back to Egypt and joined Zaqaziq University as a professor [5] where he remained until his presidency.
Leadership of Morsi: Just like the founder of the Muslim Brotherhood Hassan al-Banna, Muhammad Morsi also selected teaching as his profession. [6]. He looks like a typical worker of Muslim Brotherhood and an ordinary man. Though being an ordinary person his character and loyalty for his organization makes him respectable in the eyes of other members of the organization. The charisma in his personality brings a common man of Egypt near the vision of Brotherhood, and this charisma urged them in order to get attached with the personality as well.
Verbal and Nonverbal Communication Skills: Muhammad Morsi has dynamic communication skills, verbal and nonverbal both. This can be seen from his interview which was taken by Al Jazeera [7] shows his preparation for the interview as well the answering to the cross questioning in an excellent manner. His show of nonverbal communication was shows when he had a speech in the Tehrir Square after elected as president, where he opened his chest showing no bullet proof jacket [8] which is the contrast to the former president Hosni Mubarak who used to take a large security squad with him. [9]
Muhammad Morsi opening and showing his chest to a public gathering in the celebration ceremony at Tehrir Square. [10]

Problem solving: Muhammad Moris just like the other brothers solve the problems and tasks related to the organization through the mutual understanding of the respected members of the organization. He used to tackle all such problem through mutual agreement with his fellow Brotherhood workers. This is the reason the organization was able to tackle some very difficult situations in the past, few cases which include the involvement of army in the presidential election procedure which was fought through public power, after his success he was facing opposition from certain political parties this situation was resolved through giving proper representation of all political parties in the parliament.

References:
[1] [3] [4] [5] http://www.sis.gov.eg/En/Story.aspx?sid=62578
[2] http://www.economist.com/node/21557803
[6] http://www.islamtimes.org/vdcd.j0s2yt0jfme6y.html
[7] http://www.aljazeera.net/home/print/0353e88a-286d-4266-82c6-6094179ea26d/ec1af614-ab8b-4f33-9e16-b7969e03e175
[8] http://www.telegraph.co.uk/news/worldnews/africaandindianocean/egypt/9367022/Nazir-Ali-How-Mohammed-Morsi-Egypts-first-Islamist-president-interprets-Sharia-law-will-be-a-crucial-test.html
[9] JOHN DANISZEWSKI | TIMES STAFF WRITER, Los Angeles Times, http://articles.latimes.com/1999/sep/07/news/mn-7572
[10] Picture from Dispatch.com

داخلہ ٹیسٹ: فائدہ یا نقصان؟ (پہلا حصہ)

داخلہ ٹیسٹ: فائدہ یا نقصان؟
آج کل تقریباً تمام جامعات میں داخلہ سے پہلے داخلہ ٹیسٹ لیا جاتا ہے. لیکن یہ لیا کیوں جاتا ہے؟ تاکہ ان افراد کو لسٹ سے خارج کیا جاۓ جو غیرقانونی طریقے سے نمبر لیکر آئے ہیں. پرائیوٹ جامعات سے ابھی لاتعلق رہیں پہلے ان اداروں کی بات کی جائے جو حکومت چلا رہی ہے جیسے جامعہ کراچی، جامعہ این ای ڈی، داؤد کالج، جامعہ اردو وغیرہ، ان میں سے تمام جامعات میں داخلہ کیلئے آپکو داخلہ ٹیسٹ دینا پڑیگا شاید ان کے نزدیک آپکا انٹر کا رزلٹ مشکوک ہے. یعنی ایک حکومتی ادارے (مثلاً جامعہ کراچی) کو دوسرے حکومتی ادارے (مثلاً انٹر بورڈ) پر اعتبار نہیں؟ اب اگر جامعات سے بات کی جائے تو جواب یہ ہوگا کہ ہم ان درخواست گزاروں کو خارج کرنا چاہ رہے ہیں جو معیار پر پورے نہیں اترتے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ "معیار" کیا ہے؟ اگر معیار اس ہی کا نام ہے جو جامعات کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہے تو پھر بجاۓ اسکے کہ ان سے انٹر کی مشقّت لی جاۓ جب انکو آگے انٹری ٹیسٹ میں ہی پرکھنا ہےتو انکو اس کی ہی کیوں نہ تیاری کرائی جائے؟
مسئلہ کا حل صرف اتنا سا ہیکہ انٹر کی تعلیم کو معیاری بنایا جائے اور اس کو اس نہج پر لیجایا جائے کے وہ سرٹیفیکیٹ جامعات کیلئے قابل قبول ہوجائے. لیکن مسئلہ کی جڑ کو ختم کرنے کے بجاۓ سب مسئلہ کے حل کی کوشش میں طلبہ کیلئے مشکلات کھڑی کئے جارہے ہیں!
جب ایک چیز میں پیسے کی فراوانی آجائے تو وہ خود ہی مشکوک ہوجاتی ہے اور یہی حساب انٹری ٹیسٹ کا ہے اس میں کئی کے مالی مفاد موجود ہیں اور اس ہی لئے اس سسٹم کو مزید تقویت دی جارہی ہے. سب سے پہلا فائدہ تعلیمی ادارے کا ہے. ایک تعلیمی ادارہ یا جامعہ جب داخلوں کا اعلان کرتا ہے تو اس نتیجہ میں اسکو ہزاروں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی ہیں. ہر درخواست کی ایک مخصوص فیس ہوتی ہے قطع نظر اسکے کہ وہ درخواست قبول ہوتی ہے کہ ردی کا حصہ بنے. اس طرح داخلہ سے پہلے سیٹوں کی تعداد سے کہیں زیادہ درخواستیں موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے جامعہ کو ایک بھاری رقم ملتی ہے. ٹیسٹ کی مخصوص رقم بھی ہر سال سو دو سو روپے کے حساب سے بڑھ رہی ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ایک طالبعلم کے ٹیسٹ میں بیٹھنے کا اتنا خرچہ آتا ہے؟ یا یہ سب جامعہ کے اکاؤنٹ کی زینت بنتا ہے؟
اس ٹیسٹ سے دوسرا مفاد ان اداروں کا ہے جو پورا پورا سال طلبہ کو ٹیسٹ کی تیاری کراتے ہیں. ان میں سے ہر ادارہ طلبہ کو ایڈمیشن ٹیسٹ پاس کرنے اور داخلہ کی گارنٹی دیتا نظر آتا ہے. جبکہ اکثر اوقات جامعات کی راہ پر چلتے یہ ادارے مخصوص نشستوں سے بھی زیادہ طلبہ کو انرول کرلیتے ہیں. ظاہر ہے ان میں سے کئی کا دعوی فیل ہوتا ہوگا مگر آڈٹ کون کرے ان سے پوچھنے والا کون؟ بہتی گنگا میں سب نہا رہے ہیں!
واللہاعلم
(ابنِ سیّد)
نوٹ: پہلا پارٹ ہے، انشاءاللہ تحقیق کے ساتھ ساتھ اگلی معلومات کا تبادلہ کرتا رہوںگا.

Thursday, October 24, 2013

بچوں پر کارٹون کے اثرات!

بچوں پر کارٹونز کے اثرات:
کچھ دن پہلے ایک صاحب کی پوسٹ  پڑہی جس میں وہ بتارہے تھے کے کس طرح "ہم" ٹی وی پر آنے والے ڈراموں میں اخلاق سے گرے ہوئے ڈائیلاگ نئی نسل پر برا اثر ڈال سکتے ہیں.
میں اس میں تھوڑا مزید اضافہ کرنا چاہتا ہوں، ڈرامے دیکھنے والے نوجوان پھر بھی ذرا میچور ہوتے ہیں اور اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہیں لیکن ایک بچّہ شاید اس میں تمیز نہ کرپاۓ. اگر آپ ان کارٹون پر نظر دوڑائیں جو آج کا بچہ دیکھ رہا ہے تو آنے والا وقت اخلاقی طور پر مزید بھیانک دکھے گا. مثلاً:
-ایک کارٹون میں دکھایا جا رہا ہے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ ریلیشن، جس میں لڑکا اسکو ڈنر پر مدعو  کرنے میں ہچکچا رہا ہے، وغیرہ
-تُو تڑاپ کا استعمال بچوں کی زبان.خرابی کا باعث
-ٹپُوری زبان کا استعمال
-"تمہاری ماں کی آنکھ" ایک کارٹون کا دوسرے کارٹون سے مکالمہ
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں جبکہ جو معصوم ذہن سارا سارا دن کارٹون دیکھتے ہیں انکے ذہنوں میں کیا کیا جاتا ہوگا اور آنے والے دور میں کیا گُل کھلا سکتا ہے! بہرحال یہ ایک لمحہِ فکریہ ہے.
(ابنِ سیّد)

Tuesday, October 22, 2013

قیامِ پاکستان اور علماء کا کردار

قیام پاکستان کے وقت علماء کے دو گروہ ہوگئے تھے. ایک کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بننا مسلمانوں کی طاقت کا بٹوارہ ہے کیوں کہ اس طرح دور کی وہ ریاستیں پاکستان میں شامل نہ ہو پائیں گی. نتیجہ کہ مسلمانوں کے درمیان ایک خلیج حائل ہوجاۓ گی.
اسکے ساتھ ہی دوسرے گروہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہتر طور پر اسلام کی کھل کر ترویج و اشاعت  ہو سکتی ہے. اپنے اپنے لحاظ اور عقل علم و سمجھ کی بنیاد پر دونوں گروہ ٹھیک ہوسکتے ہیں.
اور جب پاکستان بنا تو علماء کے دونوں گروہوں نے اس کو دل سے تسلیم کیا. انکا کہنا تھا کہ مسجد بنائی جاۓ یا نا بنائی جائے اس پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن جب مسجد بن جاۓ تو مسلمان پر اسکی حفاظت لازم ہوجاتی ہے. انہوں نے اس طرح پاکستان کو مسجد کا درجہ دیا.
دونوں گروہوں نے آپس کے اختلاف ختم کئے اور مل کر پاکستان کی خدمت اور اسلام کی اشاعت میں زندگیاں کھپا دیں.
آج کے دور میں اگر بعض افراد جن کا تعلق ان دونوں علماء کے ساتھ رہا ہو یا غیرتعلق رہے ہوں اگر اس مسئلہ کو بنیاد بنا کر اسکی بنأ پر رنجشیں پیدا کریں تو یہ نری جہالت ہوگی اور گڑے مردے اکھاڑنے سے مترادف ہے.
(مولانا مسعود اظہر کی ایک کتاب میں کچھ اس بارے میں پڑھا تھا اسکو اپنے الفاظ میں لکھ دیا مختصراً، امید ہے کچھ لکھنے میں غلطی ہو تو احباب تصحیح فرمادیں گے. جزاک اللہ)
(ابنِ سیّد)

Saturday, October 19, 2013

آبادی: کیا یہ "مسئلہ" ہے یا "مسائل کا حل"؟

عابدہ حسین  جنگ کی معروف کالم نویس ہیں لکھتی ہیں کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے(کالم آبادی کا بم پھٹ چکا ہے)،انکے مطابق انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اپنے بچوں کا کھانا پینا رہائش تعلیم کر بھی سکے گا کہ نہیں اور نہیں کر سکتا تو فُل اسٹاپ.جبکہ ہم جانتے ہیں اس دنیا میں ہر شخص کا رزق نہ اسکے ماں باپ فراہم کرسکتے ہیں نہ حکومت بلکہ اللہ اسکا رزق مقرر کرتا ہے. جن ممالک نے آبادی کو مسئلہ سمجھ کر روکا آج وہ پچھتا رہے ہیں وہاں معمر افراد بڑھ رہے ہیں اولڈ ہوم  بھر رہے ہیں کیوں کہ بوڑھوں کو سنبھالنے والی اولاد موجود نہیں. اسلام کی تعلیم یہی ہے کہ ہر شخص اس دنیا میں اپنا رزق خود لاتا ہے،اللہ ہر جاندار کو رزق پہنچاتا ہے.
اسکے علاوہ انکے کالم کا دوسرا نکتہ جس پر مجھے تشویش ہے کہتی ہیں شادی تیس سال سے پہلے نہ کریں.جبکہ یہ تو معاشرہ جس اخلاقی تنزلی کی جانب جا رہا ہے اسکی رفتار دوگنی کرنے کے مترادف ہے.
(ابنِ سیّد)

Friday, October 18, 2013

خود بدلتے نہیں قرآں بدل دیتے ہیں

زنا کی سزا میں چار گواہ اسلام کا مطالبہ ہے، قرآن کا مطالبہ  ہے یہ کسی مولوی کا فتوی نہیں قرآن کھولو تو خود مل جائیگا. لیکن باوجود اس کے جب اس مسئلہ پر بات ہوتی ہے یہ لبرل اور بعض وہ لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں یہ  بات کرتے ہیں کہ فلاں مفتی نے ایسا کہا جبکہ اس مفتی نے تو قرآن سے رہنمائی لی تھی. یہ لوگ اسلام کو کھل کر برا نہیں کہ سکتے انہیں اسلامی احکامات پسند نہیں لہذا اسکا حل انہوں نے یہ نکالا کہ جو حکم پسند نہ آئے اسکو کسی مفتی سے نتھی کرکے اس مفتی کو برا کہنا شروع کردو. جب کہ اگر خود قرآن کھولتے تو واضح آیت انکے سامنے ہوتی. یہ تو ایک مثال ہے جبکہ اطراف میں نظر دوڑائیں ہر دوسرا  بندہ آپکو علماء کی تضحیک کرتا ملیگا، وہ جو بھی وجہ بتائے مگر اکثر اوقات بات یہی ہوتی ہے کہ انکے نفس کو اسلام کا وہ حکم پسند نہیں آتا.
 خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں
(ابنِ سیّد)

Tuesday, October 15, 2013

دائیں اور بائیں بازوؤں کا توازن


شاید موضوع آپکو ذرا وکھری ٹائپ کا لگے لیکن بہرحال ایک خیال ہے جسکا میں سمجھتا ہوں کہ اظہار ضروری ہے. کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ شاید غلط اور صحیح کی جنگ جو کہ ازل سے جاری ہے اور بہت ممکن ہے کہ ابد تک جاری رہے. اس جنگ کے دو اہم ٹیمیں ہیں اور کھلاڑی بھی اسی لحاظ سے ہیں. دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان یہ جنگ معاشرے میں ایک توازن برقرار رکھی ہوئے ہے. دونوں طرف کے افراد علم اور ریسرچ کے حوالے  سے خاصے منجھے ہوئے ہیں. بعض دفعہ لبرلز کچھ ایسے حوالے دیتے ہیں جو ہم نے دیکھے نہیں ہوتے اور بہت دفعہ ایسا بھی ہوا جب دائیں بازو کے اراکین کچھ ایسے اقوال کا حوالہ دے جاتے ہیں کہ مخالف سر کھجاتا رہ جاتا ہے. لیکن ایک چیز دونوں میں مماثل ہے اور وہ یہ کہ دونوں قبیلوں کے افراد ہی نہایت قلیل تعداد میں ہیں. ایک قبیلے کی گرفت معاشرے کے اقتدار اور مواصلات کے اوپر ہے تو دوسرے قبیلے کی رسائی معاشرے کے اندر. اور یہ دونوں انتہاؤں کے درمیان معاشرے کا ایک بڑا حصہ جو کے نہ اِدھر کا ہے نہ اُدھر کا اور اسی طبقے کو اپنے اپنے قبیلوں میں لانے کیلئے دونوں طرف کے لوگ لاتعداد محاذوں پر ان علمی بحثوں میں مشغول ہیں. لیکن بہرحال ان دونوں طبقات کی وجہ سے معاشرے میں ایک توازن ہے.
(ابنِ سیّد)

Monday, October 14, 2013

ایک "بہادر" سپہ سالار کا قصہ

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب ہمارا ملک گوں نا گوں کیفیات سے گزر رہا تھا یہ وہی دور تھا جس کو بڑے لوگ تاریخ کا نازک ترین موڑ کہتے ہیں جب پاکستان میں ہر طرف خوف کا راج تھا عوام بھوکی مرتی تھی ایسے میں ایک سالارِ اعظم سامنے آیا اور اس نے پاکستان کو ملک کے وسیع تر مفاد میں مشرف با مشرف کیا. یہ شخص جو ایک نڈر سپاہی تھا اب قوم کی امیدوں کا مرکز بنا! اس کے اقتدار میں آتے ہی امریکہ، انڈیا، اسرائیل کے ایوان ہل کے رہگئے. جب امریکہ نے اس کو فون کر کہ کہا ک پتھر کے دور میں پہنچا دونگا تو اس نے پاکستانی فلم کے ہیرو کی طرح للکار کر کہا "نہیییییییں" اور پھر گرج کر "سب سے پہلے اسلام" کا نعرہِ مستانہ بلند کردیا. آخر کار امریکہ کو اس کے قدموں میں بیٹھنا پڑا. اور جب امریکہ نے کہا کہ وہ افغانستان پر حملہ کریگا تو اس بہادر سالار نے کہا کہ "ہماری لاشوں سے گزرنا پڑیگا" اور جب امریکہ نے ڈرون کے لئے ہوائی اڈا مانگا تو اس نے تاریخی جملہ کہا "میں خود کو مسلمانوں کا قاتل نہیں کہلانا چاہتا" اور جب امریکہ نے کہا کہ ہمیں نیٹو سپلائی لیجانے کا رستہ دو تو اس نے کہا کہ اگر اس پاک سرزمین سے مسلمانوں کے قتل کا سامان گزرا تو میرے منہ پر لعنت. انہی دنوں ملکی چینلوں پر نت نئے پروگرامات آئے جس میں لوگوں کو اسلام کا درس دیا جاتا. تمام ملک کے لوگ اسلام کے سچے پیروکار بن گئے اور مخلوط میراتھن جیسی چیزوں کا بائیکاٹ کردیا. اس نے ملک کی وفادار جماعتوں کے ساتھ وفا کی اور انہیں کراچی میں امن کا چارج دیا جس کے بعد کراچی میں امن کا راج ہوا اور ٹارگٹ کِلّر بھوکوں مرنے لگے. بھتّہ دینے والے ڈھونڈتے پھرتے تھے مگر کوئی بھتہ لینے والا نہ ملتا.
یہی وہ شخص تھا کہ جب رخصت ہوا تو قوم.کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ دامن پھیلا پھیلا کر دعائیں دے رہے تھے. دعائیں؟ جی ہاں دعائیں!
Note: All characters appearing in this work are fictitious. Any resemblance to real persons, living or dead, is purely coincidental.

Sunday, October 13, 2013

Nust: My Right To Wear!


جب دنیا کے کسی ملک میں حجاب پر پابندی  لگتی ہے یا حجاب پہننے پر کسی خاتون کو نشانہ بنایا جاتا ہے، بعض اوقات تو شہید کردیا جاتا ہے (شہیدِ حجاب مروی کی مثال موجود ہے) تب تو یہ لبرلز اور روشن خیال افراد کا گروہ دم سادھے بیٹھا رہتا ہے. اس وقت نہ انکو کوئی حقوق کی خلاف ورزی نظر آتی ہے نہ کوئی (My Right To Wear) والا قبیلہ آواز اٹھاتا ہے.  لیکن جب کسی جامعہ میں کچھ طلباء و طالبات پر نامناسب کپڑے پہن کر آنے پر انکو جرمانہ کیا جاتا ہے تو اس وقت سارے زمانے کا دکھ، انکے حقوق اور ضیا الحق کا دور انہیں یاد آنا شروع ہوجاتا ہے جیسے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہو. یہ ہے ان نام نہاد روشن خیال لوگوں کی نہایت ہی چھوٹی ذہنیت...
جتنا بڑا مسئلہ اس ملک میں تعلیم کا معیار ہے اتنا ہی بڑا مسئلہ طلباء کی مناسب تربیت ہے اور ایک اچھا تعلیمی ادارہ اپنے طلباء میں نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے ہر اقدام کرتا ہے. دنیا کی معیاری پانچ سو جامعات میں نسٹ کا نام ایسے ہی نہیں آگیا!
(ابنِ سیّد)

Saturday, October 12, 2013

12 October!

12 اکتوبر...
یہی گرم دن اور حکومت بھی یہی، کارگل کی شکست کے زخم بھرے بھی نہ تھے کے پتہ چلا کہ قومی چینل پر صرف ملی نغمے آرہے ہیں اور پھر وہی آواز "میرے عزیز ہم وطنوں!" ایک بار پھر آمریت دیواریں پھلانگ کر ایوان میں آچکی تھی پھر ایک نئے دور کا آغاز، پاکستان کے عوام مہنگائی سے بے حال تھے، کیوں نہ ہوتے کوئی نئی وجہ تو نہ تھی کب ہم نے دیکھا یا کب سنا کہ مہنگائی ننہیں لیکن یہ وجہ تو نہ تھی.بلکہ ایک ہی وجہ تھی "انا" اور اسی اناپرستی کی آگ نے فوج کو اقتدار کا رستہ دکھایا. وہ آئین جس کو سب نے متفقہ منظور کیا تھا معطل کردیا گیا ایک بندوق کی نال کے زور پر.
لوگ خوش تھے، بیوقوف تھے! سیاسی حلقے پریشان تھے...پھر زوال شروع ہوا وہ سپہ سالار جس کو قوم بہادر سمجھی تھی وہ تو نرا بزدل نکلا، سب سے پہلے کشمیر بکا، پھر جھاد کا نام بکا، پھر سب سے پہلے پاکستان کے نعرے پر افغان مسلمانوں کی جانیں بکیں..پھر کیا کیا نہ بکا میڈیا کی آزادی کے نام پر افکار بکے، روشن خیالی کے نام پر میراتھن ہوئی عزتیں نیلام ہوئیں، ہوائی اڈّے بِکے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنوں کی جانیں بِکیں...مائیں بہنیں بکیں عافیہ بکی...آج تمہارا مجرم ضمانتوں پر ضمانتیں کروا رہا ہے، لیکن ہر عروج کو زوال ہے، ہمارے افکار کا سوداگر بچنے نہ پائے، کیا بھول گئے ہو اے لوگو!....
(ابنِ سیّد)

Thursday, October 10, 2013

"Welcome to Pakistan" article published in SIO-India's Magazine

یہ ہے میرے اس آرٹیکل کا عکس جو ایس آئی او (انڈیا) کے میگزین وِمارش میں شائع ہوا. جس کو آپ اس لنک سے بھی دیکھ سکتے ہیں ( http://thecompanion.in/vimarsh/ebook/august13/#27/z ) یہ آرٹیکل انگریزی زبان میں بھی انکی ویب سائیٹ پر شائع ہوا جسے آپ یہاں سے دیکھ سکتے ہیں ( http://thecompanion.in/welcome-to-pakistan/ )
زیادہ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ یہ آرٹیکل اگست کے شمارے میں شائع ہوا جو کہ دونوں ممالک کیلئے خاص مہینہ ہے حب الوطنی عروج پر ہوتی ہے. لہذا پاکستان میں اگست میں کوئی انڈیا پر آرٹیکل لکھے تو ہم اسے انڈین ایجنٹ کا خطاب دینے میں دیر نہیں لگائینگے. لیکن ایس آئی او والوں کی ہمت کو داد ہے جو انہوں نے ایک اقلیت ہوتے ہوئے انڈیا میں رہتے ہوئے اگست میں اپنے شمارے میں پاکستان کے اوپر ایک مثبت آرٹیکل کو جگہ دی جبکہ دونوں ملکوں میں کشمکش اس وقت بھی بارڈر پر جاری تھی. اپنی قیمتی آراء سے ضرور آگاہ کیجئے گا. جزاک اللہ

Wednesday, October 9, 2013

جمعیت سے کیا پایا



جمعیت سے باضابطہ رشتہ، رفاقت کی صورت بنتا ہے. جمعیت سے میرا تعارف ٢٠٠٧ میں ہوا اور اسی سال رفیق بنا، اِس بے معنی اور بے مقصد زندگی کو جیسے ایک شعور ایک راستہ مل گیا.اسلام کے حقیقی تصور سے واقف ہوا. صرف چھے سال کی رفاقت نے وہ کر دکھایا جو شاید بچپن سے اب تک کی تربیت نہ کر سکی. اس بزدل وجود کو حق کے لئے جان کی بازی لگانا سکھایا. اس لرزتی زبان کو مجمع میں بولنا سکھایا. سب سے بڑھ کر اس فانی دنیا کی حقیقت کھول کے بتا دی اور آخرت کی ابدی تصور سے روشناس کرایا. مجھے اب بھی یاد ہے میں گلے میں چین پہنتا تھا یہ شاید فیشن سے متاثر ہو کر یا پھر انگریزی رسم و رواج کی زنجیر تھی جو گلے میں عرصے سے پڑی ہوئی تھی، جس سے نجات ملی. اور سب سے بڑھ کر بھائیوں سے بڑھ کر زیادہ محبت، ایثار کرنے والے تحریکی بھائیوں سے ملایا. اے جمعیت تو سلامت رہے تاقیامت رہے...
(ابن سیّد)
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...

Facebook Comments